شوکت علی نے کہا کہ اترپردیش میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کی بیشتر تیاریاں تقریباً مکمل ہو چکی ہیں۔ ہم نے ایسی 100 نشستوں کی نشاندہی کی ہے جس پر مضبوطی کے ساتھ الیکشن لڑیں گے اور اس کی تیاریاں بھی زور و شور سے جاری ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین نے 2017 میں اتر پردیش اسمبلی انتخابات میں حصہ لیا جس میں مختلف سیٹوں پر بہت ہی کم ووٹ حاصل ہوئے اور ایک دو سیٹوں پر بڑی تعداد میں ووٹ ملے۔ اس کے علاوہ ریاست کے کئی چھوٹے بڑے انتخابات میں آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے امیدوار حصہ لیتے رہے ہیں۔ اب 2022 کے انتخابات میں پوری مضبوطی کے ساتھ میدان میں رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ریاست کے 75 اضلاع میں مسلسل دورہ کر رہے ہیں اور لوگوں سے ملاقات کر رہے ہیں۔ غریب مزدور اور پسماندہ، قبائلی اور مسلمانوں کی آواز آواز بلند کر رہے ہیں اور انہیں کے مسائل پر ہم الیکشن لڑیں گے۔
انہوں نے کہا کہ 2022 کے انتخابات میں ہمارا مدعا ہوگا زیادہ سے زیادہ ہاسپیٹل کھولے جائیں، مسلمانوں کو ریزرویشن دیا جائے، مسلم علاقوں سے شراب کی دکانیں ہٹائی جائیں، مسلمانوں کا بیجا استحصال بند ہو، مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی بند ہو، ان کے حقوق دیے جائیں یہ تمام ایشوز انتخابات میں زور و شور سے اٹھائے جائیں گے اور انہیں پر انتخابات لڑا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ کی سماج وادی پارٹی سے ہم نے مسلم نائب وزیر اعلی بنانے کے کے حوالے سے سوال کیا تھا۔ ہم نے اتحاد کرنے کے لیے مطالبہ نہیں کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اعظم خان گذشتہ برس سے جیل میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں لیکن سماج وادی پارٹی سنجیدہ اقدامات نہیں کر رہی ہے۔ یہی وہ سوال ہے جس کو لے کر آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین سے سیکولر سیاسی جماعتوں سے پوچھ رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے اتحاد کا دروازہ بند نہیں کیا ہے جو بھی بڑی پارٹیاں آئیں بات چیت کے ذریعے اتحاد کیا جا سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بارہ بنکی: سماجوادی پارٹی نے سائیکل ریلی نکالی
شوکت علی نے کہا کہ کانگریس پارٹی کو اتر پردیش اسمبلی انتخابات میں شرکت نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ کانگریس پارٹی ایک ڈوبتی ہوئی کشتی ہے اور اس ڈوبتی ہوئی کشتی میں کوئی بھی سوار نہیں ہونا چاہتا ہے۔
ای ٹی وی بھارت نے ان سے سوال کیا کہ جو سیاسی جماعتوں کا الزام ہے کہ بی جے پی کی بی ٹیم ہیں یا ووٹ کاٹ رہے ہیں اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 2019 کے انتخابات میں ہم نے حصہ نہیں لیا اس کے باوجود بھی سیکولر پارٹیوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا 2014 کے پارلیمانی انتخابات میں حصہ نہیں لیا اس کے باوجود سیکولر پارٹیوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور بی جے پی اقتدار میں آئی جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ سیکولر سیاسی پارٹیاں اپنی ناکامیاں چھپانے کے لئے الزام تراشیاں کرتی ہیں۔