ETV Bharat / state

Aligarh Muslim University: اے ایم یو کا قیام اور اس کے عطیہ دہندگان - اے ایم یو کو چندہ دینے والوں کے نام

1920 میں محمڈن اینگلو اوریئنٹل (ایم اے او) کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دلوانے کے لئے برطانوی حکومت کو تیس لاکھ روپے دینے والوں کے نام یونیورسٹی کے کسی مقام پر محفوظ نہیں کئے گئے، جس طرح سر سید احمد خان کی دور کی تعمیرات پر عطیہ دہنگان کے نام محفوظ کئے گئے تھے جو آج بھی موجود ہیں۔List of AMU donor names

اے ایم یو
اے ایم یو
author img

By

Published : Jun 1, 2022, 2:23 PM IST

Updated : Jun 3, 2022, 2:55 PM IST

بانی درسگاہ سر سید احمد خان کے 1898 میں انتقال کے بعد ان کے جانشین،دوست احباب اور ہمنواؤں نے ایک خاص میٹنگ کی ،اس میٹنگ میں یہ طے کیا گیا کہ سر سید احمد خان کی یاد کو عظیم بنانے کے لئے ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے اس سے بہتر کوئی کام ہو ہی نہیں سکتا کہ ان کے ادارے کو یونیورسٹی میں تبدیل کیا جائے، یونیورسٹی کا درجہ دلوایا جائے جس کے لئے ایک تحریک شروع کی گئی جو 1920 تک چلی۔List of AMU donor names

اے ایم یو

برطانوی حکومت نے محمڈن اینگلو اوریئنٹل (ایم اے او) کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دینے کے لئے تیس لاکھ کا مطالبہ کیا جس کے لئے سر سید احمد خان کے جانشین، دوست احباب اور ہمنواؤں نے تیس لاکھ روپے برطانوی حکومت کو دے کر یونیورسٹی کا درجہ دلوایا جس کے بعد ہی یکم دسمبر 1920 کو علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا۔ سر سید اکیڈمی کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد شاہد نے علیگڈھ مسلم یونیورسٹی کے قیام اور اس کی عطیہ دہنگان سے متعلق بتایا سر سید کے انتقال کے بعد شروع تحریک میں جان جب پڑی جب 1910 میں سر آگاہ خان نے کہا اس تحریک کو آگے بڑھانے کی بات کہیں۔

ڈاکٹر شاہد نے بتایا اس وقت کی برطانوی حکومت نے کہا تھا کہ اگر مسلمانوں کو یونیورسٹی حاصل کرنی ہے یا یونیورسٹی کا درجہ حاصل کرنا ہے تو تیس لاکھ روپے جمع کرنا ہوگا جس کے بعد 1910 اور 1911 میں بہت تیزی سے فنڈ اکھٹا ہو گیا تھا اور 1912 میں پوری تیاری مکمل ہو گئی تھی۔

علیگھ مسلم یونیورسٹی کے قیام میں عطیہ دہنگان:
1۔ حیدرآباد کے نظام - پانچ لاکھ روپے۔
2۔ آغا خان - ایک لاکھ پچیس ہزار۔
3۔ رامپور کے نواب - ایک لاکھ۔
4۔ راجہ احمدآباد - ایک لاکھ۔
5۔ راجہ جہانگیرآباد - ایک لاکھ۔
6۔ بیگم بھوپال - ایک لاکھ۔
7۔ سیٹھ قاسم علی - ایک لاکھ پچیس ہزار۔
8۔ راجہ بھولپور - ایک لاکھ۔

اس کے علاوہ چار سو روپے سے پچاس ہزار روپے تک کے عطیہ دہنگان اور بھی ہیں جو خلیق احمد نظامی کی کتاب "ہسٹری آف علیگڈھ مسلم یونیورسٹی" کے صفحہ نمبر 52 پر درج ہے۔

سرسید احمد خاں کے دور کی تعمیرات پر عطیہ دہندگان کے نام محفوظ کیے گئے تھے جو آج بھی موجود ہیں، لیکن علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا قیام جن لوگوں کی وجہ سے عمل میں آیا ان کے نام ذرائع کے مطابق کسی بھی مقام پر محفوظ نہیں کیے گئے جس سے یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ، ملازمت کرنے والے ملازمین اور نوجوان نسل کو یہ معلوم چلے کہ اس وقت کے لوگوں کو ادارے سے کتنی محبت تھی جنہوں نے رقم دے کر یونیورسٹی کا قیام عمل میں کروایا۔

مزید پڑھیں:UPSC Civil Services Examination 2021: اے ایم یو طالب علم نے یو پی ایس سی امتحان میں کامیابی حاصل کی



جبکہ کہ یونیورسٹی کی نوتعمیر شدہ عمارت پر انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیداروں کے نام کی تختیاں محفوظ کی جارہی ہیں، لیکن جن لوگوں کی وجہ سے یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا تھا ان کے نام اور ان کا عطیہ کی تختیاں ڈھونڈنے سے بھی دکھائی نہیں دیتی۔

بانی درسگاہ سر سید احمد خان کے 1898 میں انتقال کے بعد ان کے جانشین،دوست احباب اور ہمنواؤں نے ایک خاص میٹنگ کی ،اس میٹنگ میں یہ طے کیا گیا کہ سر سید احمد خان کی یاد کو عظیم بنانے کے لئے ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے اس سے بہتر کوئی کام ہو ہی نہیں سکتا کہ ان کے ادارے کو یونیورسٹی میں تبدیل کیا جائے، یونیورسٹی کا درجہ دلوایا جائے جس کے لئے ایک تحریک شروع کی گئی جو 1920 تک چلی۔List of AMU donor names

اے ایم یو

برطانوی حکومت نے محمڈن اینگلو اوریئنٹل (ایم اے او) کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دینے کے لئے تیس لاکھ کا مطالبہ کیا جس کے لئے سر سید احمد خان کے جانشین، دوست احباب اور ہمنواؤں نے تیس لاکھ روپے برطانوی حکومت کو دے کر یونیورسٹی کا درجہ دلوایا جس کے بعد ہی یکم دسمبر 1920 کو علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا۔ سر سید اکیڈمی کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد شاہد نے علیگڈھ مسلم یونیورسٹی کے قیام اور اس کی عطیہ دہنگان سے متعلق بتایا سر سید کے انتقال کے بعد شروع تحریک میں جان جب پڑی جب 1910 میں سر آگاہ خان نے کہا اس تحریک کو آگے بڑھانے کی بات کہیں۔

ڈاکٹر شاہد نے بتایا اس وقت کی برطانوی حکومت نے کہا تھا کہ اگر مسلمانوں کو یونیورسٹی حاصل کرنی ہے یا یونیورسٹی کا درجہ حاصل کرنا ہے تو تیس لاکھ روپے جمع کرنا ہوگا جس کے بعد 1910 اور 1911 میں بہت تیزی سے فنڈ اکھٹا ہو گیا تھا اور 1912 میں پوری تیاری مکمل ہو گئی تھی۔

علیگھ مسلم یونیورسٹی کے قیام میں عطیہ دہنگان:
1۔ حیدرآباد کے نظام - پانچ لاکھ روپے۔
2۔ آغا خان - ایک لاکھ پچیس ہزار۔
3۔ رامپور کے نواب - ایک لاکھ۔
4۔ راجہ احمدآباد - ایک لاکھ۔
5۔ راجہ جہانگیرآباد - ایک لاکھ۔
6۔ بیگم بھوپال - ایک لاکھ۔
7۔ سیٹھ قاسم علی - ایک لاکھ پچیس ہزار۔
8۔ راجہ بھولپور - ایک لاکھ۔

اس کے علاوہ چار سو روپے سے پچاس ہزار روپے تک کے عطیہ دہنگان اور بھی ہیں جو خلیق احمد نظامی کی کتاب "ہسٹری آف علیگڈھ مسلم یونیورسٹی" کے صفحہ نمبر 52 پر درج ہے۔

سرسید احمد خاں کے دور کی تعمیرات پر عطیہ دہندگان کے نام محفوظ کیے گئے تھے جو آج بھی موجود ہیں، لیکن علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا قیام جن لوگوں کی وجہ سے عمل میں آیا ان کے نام ذرائع کے مطابق کسی بھی مقام پر محفوظ نہیں کیے گئے جس سے یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ، ملازمت کرنے والے ملازمین اور نوجوان نسل کو یہ معلوم چلے کہ اس وقت کے لوگوں کو ادارے سے کتنی محبت تھی جنہوں نے رقم دے کر یونیورسٹی کا قیام عمل میں کروایا۔

مزید پڑھیں:UPSC Civil Services Examination 2021: اے ایم یو طالب علم نے یو پی ایس سی امتحان میں کامیابی حاصل کی



جبکہ کہ یونیورسٹی کی نوتعمیر شدہ عمارت پر انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیداروں کے نام کی تختیاں محفوظ کی جارہی ہیں، لیکن جن لوگوں کی وجہ سے یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا تھا ان کے نام اور ان کا عطیہ کی تختیاں ڈھونڈنے سے بھی دکھائی نہیں دیتی۔

Last Updated : Jun 3, 2022, 2:55 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.