اوریا: ریاست اترپردیش کے ضلع اوریا کے صدر کوتوالی علاقے میں اتوار کی رات کو ایس او جی ٹیم نے ایک مبینہ انکاؤنٹر کے بعد مویشی اسمگلنگ کے الزام میں دو افراد کو گرفتار کر لیا۔ پولیس نے ان سے 38 مویشی برآمد کیے۔ واضح رہے کہ 24 جون کی رات کو ایس او جی ٹیم اور صدر کوتوالی پولیس نے ایک مبینہ انکاؤنٹر کے بعد 38 جانوروں کو برآمد کیا، جو ٹرکوں میں لدے ہوئے تھے۔ پولیس کے مطابق اس دوران کئی لوگ موقعے سے فرار ہوگئے جس کے بعد پولیس نے ٹرک مالک کے خلاف مقدمہ درج کرکے تفتیش شروع کردی۔
پولیس کا دعویٰ ہے کہ تصادم کے دوران ملزمین نے پولیس پر فائرنگ شروع کر دی۔ جوابی فائرنگ میں ایک ملزم گولی لگنے سے زخمی ہوگیا۔ اسی دوران ایک دیگر ملزم کو بھی پولیس نے گرفتار کرلیا۔ اس کے پاس سے دو پستول اور متعدد کارتوس برآمد ہوئے۔ مبینہ انکاؤنٹر کی اطلاع ملتے ہی ایس پی چارو نگم نے موقعے پر پہنچ کر صورت حال کا جائزہ لیا۔
ایس پی چارو نگم کے مطابق 24 اور 25 جون کی درمیانی شب پولیس کو اطلاع ملی تھی کہ کچھ لوگ جانوروں کو ٹرکوں میں لاد کر 'اسمگل' کرنے جارہے ہیں۔ اس کے بعد پولیس کی ٹیم ان کی گرفتاری کے لیے سرگرم ہوگئی۔ بعد ازاں ناکہ بندی کر کے چیکنگ مہم شروع کی گئی۔ اس دوران اٹاوہ کی طرف جا رہا ایک ٹرک پولیس کی طرف سے لگائی گئی بیریکیڈنگ سے ٹکرا کر بھاگ گیا۔ کچھ دور جانے کے بعد ٹرک پر سوار افراد ٹرک چھوڑ کر موقع سے فرار ہوگئے۔ پولیس نے ٹرک سے 38 مویشی برآمد کیے۔
مزید پڑھیں:۔ Police Shot Nizamuddin پولیس نے گائے اسمگلنگ کے الزام میں نظام الدین کو گولی ماردی
ٹرک مالک محمد شاداب ساکن ستی کے خلاف مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دی گئی۔ تحقیقات میں پتہ چلا کہ اس کاروبار میں چھ لوگ شامل ہیں۔ دیگر لوگوں کی تلاش جاری ہے۔ پھر اتوار کی رات پولیس کو اطلاع ملی کہ ملزم محمد شاداب اپنے ایک اور ساتھی کے ساتھ کہیں جا رہا ہے۔ پولیس نے صدر کوتوالی علاقہ کے بھگوتی پور کے پاس محاصرہ کرکے انہیں روکنے کی کوشش کی۔ تبھی ملزمین نے پولیس پر فائرنگ شروع کردی۔ جوابی فائرنگ سے محمد شاداب پیر میں گولی لگنے سے زخمی ہوگیا۔ پولیس نے تصادم میں شاداب کے ساتھ ساتھ اس کے ساتھی الطاف رضا کو بھی گرفتار کرلیا۔ پولیس نے ان کے پاس سے دو پستول اور کچھ کارتوس برآمد کیے ہیں۔
وہیں پولیس کی اس کارروائی پر سماجی کارکنان نے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عید الاضحی کے موقعے پر پولیس کی جانب سے اس طرح کی کارروائی نامناسب ہے۔ سماجی کارکنان نے مویشیوں کا کاروبار اور ان کے نقل و حمل کا کام کر رہے لوگوں کو نشانہ بنائے جانے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ عید الاضحی کے پیش نظر ملک بھر میں قربانی کے مویشیوں کی نقل و حمل اور خرید و فروخت کا سلسلہ جاری ہے، جس کے سبب کئی بار ہندو شدت پسند تنظیموں سے وابسطہ کارکنان اور نانہاد گئو رکشک مسلم تاجروں پر حملہ کرتے ہیں اور ان کی بے رحمی سے پٹائی بھی کرتے ہیں۔ اترپردیش میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد مسلم تاجروں خاص طور پر گوشت کے کاروبار سے وابسطہ تاجروں کو نشانہ بنایا گیا اور ان کو معاشی طور پر پر کمزور کرنے کی کوشش کی گئی حالانکہ بی جے پی حکومت سب کا ساتھ اور سب کا وکاس کی بات کرتی ہے لیکن بی جے پی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد مسلمانوں میں مایوس پائی جا رہی ہے۔ حالی ہی میں وزیراعظم نریندر مودی کے امریکی دورے کے دوران ایک صحافی نے بھارت میں مسلمانوں کی صورتحال پر سوال کیا، جس کے جواب میں وزیراعظم مودی نے کوئی خاطر خواہ جواب نہ دیتے ہوئے ہوئے کہا کہ جمہوریت بھارت اور امریکہ کے ڈی این اے میں ہے۔ انہوں نے ملک میں مسلمانوں کو نشانہ بنائے جانے کے واقعات اور اقلیتوں کی موجودہ صورت حال پر کچھ بھی بولنے سے گریز کیا۔