کہتے ہیں کہ بارہ برس بعد تو کوڑے کے دن بھی بدل جاتے ہیں۔ لیکن بریلی میں ایک بستی ایسی ہے، جس کی قسمت میں چالیس برس کا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ یہاں گزشتہ چالیس برسوں سے پورے شہر کا کوڑا ڈالا جاتا ہے۔ اس کوڑے کے انبار کی وجہ سے یہاں امراض کا بھی انبار ہے۔ مقامی باشندوں کی زندگی بدترین خانہ بدوشوں کی مانند ہے۔ افسران کے پاس سرکاری جواب ہے تو لیڈران کے پاس وعدے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ Dump Yard is The Biggest Issues in Barley Baqarganj Area
شہر سے پانچ کلومیٹر دور اور وقت کی رفتار سے پچاس برس پیچھے چلنے والا یہ علاقہ باقرگنج ہے۔ یہاں پورے شہر کا کوڑا ڈالا جاتا ہے۔ لہٰذا، اس علاقے کو بستی کے طور پر کم، بلکہ کوڑا گھر کے طور پر زیادہ پہچانا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے اس بستی میں درجنوں بیماریاں اپنا گھر بنا چکی ہیں اور ہزاروں لوگوں کی تشویش ناک بیماری کی وجہ سے اموات بھی ہو چکی ہے۔ امراض اور اموات پر ہنگامہ آرائی کے بعد افسران اور لیڈران کا دورہ اور معائنہ ضرور ہوتا ہے، لیکن بدترین زندگی کو خوشگوار بنانے کے مؤثر اقدام کبھی نہیں ہوتے ہیں۔کوڑے کے امبار کی وجہ سے یہاں امراض کا بھی امبار ہے باقر گنج میں کوڑا گھر کے پاس 68 سالہ محمد ارشاد چائے بناتے ہیں۔ اُنہوں نے بستی میں دور گزشتہ کو اپنی آنکھوں کے سامنے آتے اور جاتے ہوئے دیکھا ہے۔ اُن کی عمر کے اس طویل عرصے میں بہت کچھ بدل چکا ہے، لیکن اگر کچھ نہیں بدلا ہے تو وہ ہے باقرگنج کا کوڑا گھر۔ بنّے علی بھی میڈیا کے سوال کرنے پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انتخابات میں تمام امیدوار اس بستی میں آتے ہیں، کوڑٓا ہٹوانے کا وعدہ کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ انتخابات ختم ہونے کے بعد وعدہ فراموش کر دیا جاتا ہے۔ شہر میں روزانہ تقریباً 500 میٹرک ٹن کوڑا نکلتا ہے اور یہ کوڑا باقرگنج کے ٹرنچنگ گراؤنڈ میں ڈالا جاتا ہے۔ ٹرنچنگ گراؤنڈ بھی پورا بھر چکا ہے۔ یہاں قریب 170 بیگھہ زمین پر 40 فیٹ تک اونچے کوڑے کے ڈھیر پہاڑ کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ کبھی کوڑا ہٹانے تو کبھی کوڑے سے کھاد بنانے کا پلانٹ لگانے کا وعدہ اور دعویٰ کیا جاتا ہے، لیکن، یہ کب ہوگا کئی ۔ مقامی لوگوں کو امید ہے کہ اسمبلی انتخابات کے بعد یہاں کوڑے کا مسئلہ حل ہو گا۔
مزید پڑھیں: