ETV Bharat / state

ہندوستان کی تاریخ کے بڑے سرمایے کو سر سید نے محفوظ کیا

Dr Rahat Abrar On Sir Syed History ماہر سر سید راحت ابرار نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو میں بتایا بانی درسگاہ سرسید احمد خان کی تعلیم سے قبل آثار قدیمہ کے میدان میں جو خدمات تھی ان پر کام نہیں کیا گیا یہی وجہ ہے کہ آج چند لوگ ہی اس سے واقف ہیں۔ ہندوستان کی تاریخ کے بڑے سرمایے کو سر سید نے محفوظ کیا۔

ہندوستان کی تاریخ کے بڑے سرمایے کو سر سید نے محفوظ کیا
ہندوستان کی تاریخ کے بڑے سرمایے کو سر سید نے محفوظ کیا
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Dec 19, 2023, 6:52 PM IST

ہندوستان کی تاریخ کے بڑے سرمایے کو سر سید نے محفوظ کیا

علی گڑھ: بانی درسگاہ سر سید احمد خان انیسویں صدی کے ایک ہندوستانی مسلم نظریہ عملیت کے حامل، مصلح اور فلسفی تھے۔ سید احمد کی پیدائش 17 اکتوبر 1817 میں دلی کے سید گھرانے میں ہوئی۔ آپ کی وفات 28 مارچ 1898 کو علیگڑھ میں ہوئی۔ ان کے والد سید متقی محمد شہنشاہ اکبر ثانی کے مشیر تھے اور والدہ عزیزالنساء نہایت مہذبی خاتون تھیں۔ سر سید کی تعلیمی خدمات سے تو دنیا واقف ہے لیکن ان کی تعلیم سے قبل آثار قدیمہ کے میدان جو خدمات تھی ان پر کام نہیں کیا گیا یہی وجہ ہے کہ آج چند لوگ ہی اس سے واقف ہیں۔

چونکہ سر سید دارالحکومت دہلی کے رہائشی تھے نے اس کی تمام تاریخی اور اہمیت کی حامل عمارات کی نشاندہی کرکے ایک کتاب "آثار الصنادید" لکھی جس کو کارسہ دتاسی نے فرانسیسی زبان میں ترجمہ کیا تھا اور ادم بیرا یونیورسٹی نے سر سید کو ڈاکٹریٹ کے اعزاز سے نوازا تھا۔

علیگڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے سابق پی آر او، سابق ڈائریکٹر اردو اکاڈمی اور ماہر سر سید نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو میں بتایا بانی درسگاہ سرسید احمد خان کی تعلیم سے قبل آثار قدیمہ کے میدان جو خدمات تھی ان پر کام نہیں کیا گیا یہی وجہ ہے کہ آج چند لوگ ہی اس سے واقف ہیں۔ سر سید نے 1847 میں دہلی کی عمارت پر ایک کتاب 'آثار الصنادید' لکھی جو اہمیت کی حامل اور تاریخی کتاب ہے۔

انہوں نے مزید بتایا جب 1864 میں سر سید احمد خان جب علیگڑھ تھے تو اس وقت دہلی میں موجود قطب مینار کی طرح علیگڑھ میں بھی ایک مینار تھی جس کو 'کوئل مینار' کہتے تھے جو علیگڑھ شہر کے علاقے جامع مسجد کے سامنے کوتوالی کے قریب میں موجود تھی۔

کوئل مینار کی خستہ حال کے پیش نظر اس وقت کے انگریز کلیکٹریٹ اس کو منہدم کرنا چاہتے تھے جب اس کا علم سر سید کو ہوا تو سر سید نے مطالبہ کرکے وہاں سے کوئل مینار کا کتبہ حاصل کرکے محمڈن اینگلو اورینٹل (ایم اے او) کالج کے نظام میوزیم میں نصب کروا دیا جو سابق وائس چانسلر ضمیر الدین شاہ کے دور سے اب اے ایم یو کے موسی ڈاکری میوزیم کی زینت بنا ہوا ہے جس کا علم یونیورسٹی میں بھی چند لوگوں کو ہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:علیگڑھ مسلم یونیورسی میں گل داؤدی، کولیئس اور گلاب کی نمائش کا اختتام

موسی ڈاکری میوزیم میں جین مذہب کا دنیا کا سب سے بڑا مانے جانے والا پیلر، بدھا کے نایاب مجسمہ، خطبے، جین اور بدھا مزاہب سے متعلق جو بھی سر سید کو علیگڑھ سمیت دیگر مقامات میں ملا اس کو وہ محفوص کرتے گئے جو آج موسی ڈاکری میوزیم میں سر سید گیلری میں موجود ہے۔ موسی ڈاکری میوزیم میں کوئل مینار کا کتبہ 10 رجب 652ھ/26 اگست 1254ء کا بتایا جاتا ہے۔

ہندوستان کی تاریخ کے بڑے سرمایے کو سر سید نے محفوظ کیا

علی گڑھ: بانی درسگاہ سر سید احمد خان انیسویں صدی کے ایک ہندوستانی مسلم نظریہ عملیت کے حامل، مصلح اور فلسفی تھے۔ سید احمد کی پیدائش 17 اکتوبر 1817 میں دلی کے سید گھرانے میں ہوئی۔ آپ کی وفات 28 مارچ 1898 کو علیگڑھ میں ہوئی۔ ان کے والد سید متقی محمد شہنشاہ اکبر ثانی کے مشیر تھے اور والدہ عزیزالنساء نہایت مہذبی خاتون تھیں۔ سر سید کی تعلیمی خدمات سے تو دنیا واقف ہے لیکن ان کی تعلیم سے قبل آثار قدیمہ کے میدان جو خدمات تھی ان پر کام نہیں کیا گیا یہی وجہ ہے کہ آج چند لوگ ہی اس سے واقف ہیں۔

چونکہ سر سید دارالحکومت دہلی کے رہائشی تھے نے اس کی تمام تاریخی اور اہمیت کی حامل عمارات کی نشاندہی کرکے ایک کتاب "آثار الصنادید" لکھی جس کو کارسہ دتاسی نے فرانسیسی زبان میں ترجمہ کیا تھا اور ادم بیرا یونیورسٹی نے سر سید کو ڈاکٹریٹ کے اعزاز سے نوازا تھا۔

علیگڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے سابق پی آر او، سابق ڈائریکٹر اردو اکاڈمی اور ماہر سر سید نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو میں بتایا بانی درسگاہ سرسید احمد خان کی تعلیم سے قبل آثار قدیمہ کے میدان جو خدمات تھی ان پر کام نہیں کیا گیا یہی وجہ ہے کہ آج چند لوگ ہی اس سے واقف ہیں۔ سر سید نے 1847 میں دہلی کی عمارت پر ایک کتاب 'آثار الصنادید' لکھی جو اہمیت کی حامل اور تاریخی کتاب ہے۔

انہوں نے مزید بتایا جب 1864 میں سر سید احمد خان جب علیگڑھ تھے تو اس وقت دہلی میں موجود قطب مینار کی طرح علیگڑھ میں بھی ایک مینار تھی جس کو 'کوئل مینار' کہتے تھے جو علیگڑھ شہر کے علاقے جامع مسجد کے سامنے کوتوالی کے قریب میں موجود تھی۔

کوئل مینار کی خستہ حال کے پیش نظر اس وقت کے انگریز کلیکٹریٹ اس کو منہدم کرنا چاہتے تھے جب اس کا علم سر سید کو ہوا تو سر سید نے مطالبہ کرکے وہاں سے کوئل مینار کا کتبہ حاصل کرکے محمڈن اینگلو اورینٹل (ایم اے او) کالج کے نظام میوزیم میں نصب کروا دیا جو سابق وائس چانسلر ضمیر الدین شاہ کے دور سے اب اے ایم یو کے موسی ڈاکری میوزیم کی زینت بنا ہوا ہے جس کا علم یونیورسٹی میں بھی چند لوگوں کو ہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:علیگڑھ مسلم یونیورسی میں گل داؤدی، کولیئس اور گلاب کی نمائش کا اختتام

موسی ڈاکری میوزیم میں جین مذہب کا دنیا کا سب سے بڑا مانے جانے والا پیلر، بدھا کے نایاب مجسمہ، خطبے، جین اور بدھا مزاہب سے متعلق جو بھی سر سید کو علیگڑھ سمیت دیگر مقامات میں ملا اس کو وہ محفوص کرتے گئے جو آج موسی ڈاکری میوزیم میں سر سید گیلری میں موجود ہے۔ موسی ڈاکری میوزیم میں کوئل مینار کا کتبہ 10 رجب 652ھ/26 اگست 1254ء کا بتایا جاتا ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.