پریاگ راج: سنگم شہر میں امیش پال کے قتل کے بعد عتیق احمد کی بیوی نے پولیس پر ان کے دو نابالغ بیٹوں کو غیر قانونی طور پر حراست میں رکھنے کا الزام عائد کیا تھا۔ عتیق احمد کی بیوی شائستہ پروین نے پولیس پر الزام لگایا تھا کہ 24 فروری کو ہونے والے واقعے کے بعد دھوم گنج پولیس نے ان کے دو نابالغ بیٹوں کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا تھا، لیکن کئی دن گزر جانے کے باوجود ان کے دونوں بیٹوں کے بارے میں کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔ جس کے بعد شائستہ پروین کی جانب سے ڈسٹرکٹ کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی تھی جس میں بیٹوں کو پولیس کی غیر قانونی حراست سے رہا کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
دھوم گنج پولیس کی جانب سے عدالت میں جواب داخل کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ سابق رکن پارلیمان عتیق احمد کے دونوں بیٹوں کو نہ تو حراست میں لیا گیا ہے اور نہ ہی تھانے لایا گیا ہے۔ پولیس کی جی ڈی میں بھی عتیق احمد کے دونوں بیٹوں کو لانے کی کوئی انٹری نہیں ہے۔ پولیس نے اپنے جواب میں واضح طور پر کہا ہے کہ تھانہ دھوم گنج میں اعظم احمد اور اعوان احمد نام کا کوئی شخص نا ہی جی ڈی میں داخل کیا گیا ہے اور نا ہی تھانہ میں بیٹھایا گیا ہے اس کے ساتھ ہی پولیس کے جواب میں یہ بتایا کہ امیش پال قتل معاملے میں کسی کو تھانہ دھوم گنج میں جی ڈی میں داخل نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی انہیں تھانے میں بٹھایا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی پولیس کے جواب میں بتایا گیا ہے کہ انچارج انسپکٹر خود امیش پال قتل کیس کی جانچ کرنے گئے ہیں۔ ساتھ ہی عدالت پولیس کے جواب سے مطمئن نہیں ہے اور دوبارہ تفصیلی رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت دی ہے۔
- یہ بھی پڑھیں: Umesh Pal Murder Case عتیق احمد کی بیوی شائستہ پروین کی درخواست پر عدالت نے پولیس سے جواب طلب کیا
شائستہ کی درخواست میں کہا گیا تھا کہ امیش پال کے قتل کے بعد پولیس اہلکار ان کے گھر میں گھس گئے اور نویں جماعت میں زیر طالب علم اعوان احمد اور بارہویں جماعت کے طالب علم اعظم احمد کو گھر سے لے گئے۔ جب پولیس دونوں بیٹوں کو گرفتار کرنے پہنچی تو ان کے دونوں بیٹے کمرے میں پڑھائی کررہے تھے تبھی پولیس انہیں زبردستی لے گئی۔ لیکن کئی روز گزرنے کے بعد بھی پولیس نے عتیق احمد کے دونوں نابالغ بیٹوں کو عدالت میں پیش نہیں کیا تب شائستہ پروین نے عدالت میں درخواست دائر کرتے ہوئے دونوں بیٹوں کو پولیس کی غیر قانونی حراست سے رہا کرنے کا مطالبہ کیا تھا، جس پر عدالت نے سماعت کرتے ہوئے دو مارچ کو پولیس سے جواب طلب کیا تھا۔