الہٰ آباد ہائی کورٹ نے اتر پردیش حکومت کو ہدایت دیتے ہوئے کہا تھا کہ ریاست میں 2011 کے بعد تعمیر کردہ غیر قانونی مذہبی مقامات کو فوری طور پر ہٹادیا جائے اور 2011 کے پہلے کی تعمیرات کو منتظمین کسی دوسری جگہ پر منتقل کر کے تعمیر کرائیں۔ اس کے بعد سے ہی انتظامیہ مسلمانوں کے مذہبی مقامات کو نشانہ بنا رہی ہے۔
اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بارہ بنکی ضلع انتظامیہ نے تحصیل رام سنیہی گھاٹ کے احاطے میں واقع قدیم مسجد کو دو شنبہ کی دیر رات منہدم کر دیا اور اس کا ملبہ مختلف دریاؤں میں بہا دیا۔
اس معاملے پر اتر پردیش سنی سینٹرل وقف بورڈ نے سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ "مؤرخہ 17-05-2021 کو تحصیل و ضلع انتظامیہ رام سنیہی گھاٹ، ضلع بارہ بنکی نے سب ڈویژنل مجسٹریٹ کی قیادت میں غیر قانونی قبضہ ہٹانے کے نام پر رام سنیہی گھاٹ کی تحصیل احاطہ کے قریب موجود 100سالہ مسجد کو منمانے و غیر قانونی طریقے سے منہدم کردیا ہے، جس کی میں انتہائی مذمت کرتا ہوں کیونکہ ضلع انتظامیہ و سب ڈویژنل مجسٹریٹ کا یہ قدم نہ صرف قانون کے خلاف ہے بلکہ اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال بھی ہے۔
نیز ہائی کورٹ کے واضح حکم 24-04-2021 کی پوری طریقہ سے خلاف ورزی ہے۔ یو پی سنی سینٹرل وقف بورڈ اس سلسلے میں فوری طور پر مسجد کی بحالی و اعلیٰ پیمانے کی عدالتی جانچ و جن افسران نے اس غیر قانونی حرکت کا ارتکاب کیا ہے، ان کے خلاف قانونی کارروائی کے لئے عدالت عالیہ سے رجوع کرے گا۔"
معلوم رہے کہ ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران بارہ بنکی میں واقع مسجد کے متولی مشتاق علی نے بتایا تھا کہ 9 مارچ کو رات میں ہمیں نوٹس ملا، جس کا جواب دے دیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ضلع انتظامیہ پہلے جواب نہیں لے رہی تھی لہٰذا ہم نے پوسٹ کے ذریعے جواب بھیج دیا تھا۔ مصطفیٰ علی نے یہ بھی بتایا تھا کہ مسجد بہت پرانی ہے، ہم لوگ اپنے بچپن سے وہاں نماز پڑھ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ 2019 میں ہم نے یو پی سنی سینٹرل وقف بورڈ میں مسجد کو درج کرادیا تھا۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ مسجد میں نماز پڑھنے سے منع کردیا گیا ہے۔
وہیں ایڈوکیٹ ظفریاب جیلانی نے بتایا کہ 2008.09 میں یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت تھا، جس کے بعد سپریم کورٹ نے سبھی ریاستوں کے ہائی کورٹ کو یہ معاملہ بھیج دیا تھا، تبھی سے ہائی کورٹ میں مانیٹرنگ ہو رہی ہے۔
سپریم کورٹ کی ہدایت تھی کہ "جو عبادت گاہیں پبلک پیلس میں بن گئی ہیں، جن میں سڑک، پارک، سرکاری زمین شامل ہیں، انہیں ہٹا دیا جائے لیکن پرانی عبادت گاہوں پر سپریم کورٹ خاموش ہے۔"
2016 میں ہائی کورٹ میں آرڈر ہوا، جس میں یہ جملہ آگیا کہ 2011 کے بعد تعمیر کردہ مذہبی مقامات کو ہٹا دیا جائے اور 2011 کے پہلے کی عبادت گاہوں کو دوسری جگہ منتقل کر دیا جائے، جس کی ذمہ داری منتظمین کی ہوگی۔
ظفریاب جیلانی نے بتایا کہ اسی کے تحت یوپی سرکار کاروائی کر رہی ہے لیکن دیکھا جا رہا ہے کہ مسلم عبادت گاہوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا جارہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بارہ بنکی مسجد کا معاملہ میرے پاس آیا ہے، مسجد انتظامیہ کے پاس سبھی کاغذات موجود ہیں۔
مزید پڑھیں:
بارہ بنکی: انتظامیہ نے مسجد کو منہدم کرکے ملبے کو دریا میں بہا دیا
ایڈوکیٹ ظفریاب جیلانی نے بتایا کہ بارہ بنکی کی جس مسجد کو سرکاری زمین پر تعمیر کردہ بتایا جا رہا ہے، وہ غلط ہے کیونکہ مسجد انتظامیہ کے پاس سبھی کاغذات موجود ہیں، جس میں درج ہے کہ وہاں پر ایک مسجد، اسکول، کنواں اور تحصیل ہے۔ لہٰذا مسجد غیر قانونی نہیں ہے۔