بریلی (اترپردیش): گائے کا پیشاب جسے کئی دہائیوں سے ایک معجزاتی دوا کہا جاتا رہا ہے، اب اسے براہ راست انسانی استعمال کے لئے غیر موزوں پایا گیا ہے کیونکہ اس میں ممکنہ طور پر نقصان دہ بیکٹیریا موجود ہیں۔ انڈین ویٹرنری ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (آئی وی آر آئی) جو جانوروں پر ملک کا سب سے بڑا تحقیق کرنے والا ادارہ ہے، نے پایا ہے کہ بھینس کا پیشاب بعض بیکٹیریا پر زیادہ موثر تھا۔
انسٹی ٹیوٹ کے بھوج راج سنگھ کی سربراہی میں پی ایچ ڈی کے تین طلباء کے ساتھ کی گئی تحقیق میں پتا چلا ہے کہ صحت مند گایوں اور بیلوں کے نمونوں میں Escherichia coli کی موجودگی کے ساتھ کم از کم 14 قسم کے نقصان دہ بیکٹیریا موجود ہیں جو پیٹ میں انفیکشن کا سبب بن سکتے ہیں۔ تحقیق کے نتائج آن لائن ریسرچ ویب سائٹ، ریسرچ گیٹ میں شائع کئے گئے ہیں۔
انسٹی ٹیوٹ میں ایپیڈیمولوجی کے شعبہ کے سربراہ سنگھ نے کہا کہ گائے، بھینس اور انسانوں کے پیشاب کے 73 نمونوں کے تجربے سے پتہ چلا ہے کہ بھینس کے پیشاب میں اینٹی بیکٹیریل سرگرمی گائے سے کہیں زیادہ بہتر تھی۔ بھینس کا پیشاب بیکٹیریا پر نمایاں طور پر زیادہ موثر تھا۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے گائے کی تین اقسام کے پیشاب کے نمونے اکٹھے کئے جن میں ساہیوال، تھرپارکر اور ونداوانی (کراس نسل) کے مقامی ڈیری فارموں شامل تھے ان کا مطالعہ کیا گیا، جون اور نومبر 2022 کے درمیان یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ بظاہر صحت مند افراد کے پیشاب کے نمونوں کا ایک بڑا تناسب ممکنہ طور پر پیتھوجینک بیکٹیریا رکھتا ہے۔ بیکٹیریا کے منتخب گروپ کے لئے روکا جا سکتا ہے لیکن عام یہ خیال کہ گائے کا پیشاب اینٹی بیکٹیریل ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کسی بھی صورت میں پیشاب کو انسانی استعمال کے لئے تجویز نہیں کیا جا سکتا۔ کچھ لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ کشید پیشاب میں متعدی بیکٹیریا نہیں ہوتے۔ ہم اس پر مزید تحقیق کر رہے ہیں۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ گائے کا پیشاب ہندوستانی بازار میں فوڈ سیفٹی اینڈ اسٹینڈرڈز اتھارٹی آف انڈیا (FSSAI) کے ٹریڈ مارک کے بغیر بڑے پیمانے پر فروخت کیا جاتا ہے۔