ویکسین کے تیسرے مرحلے کے ٹرائل کے لیے تقریباً 250 سے زیادہ درخواستیں موصول ہو چکی ہیں۔ سبھی درخواستوں کو ٹرائل میں شامل کرنے سے قبل پروٹوکول اور آئی سی ایم آر کے ضوابط کے مطابق پرکھا جائے گا۔ ویکسین ٹرائل کے لیے عملہ کو ٹریننگ دینے کے مقصد سے بھارت بائیوٹیک کے ریسورس پرسن جلد اے ایم یو کا دورہ کریں گے۔
کووڈ ویکسین کے ٹرائل کے پرنسپل انویسٹی گیٹر پروفیسر محمد شمیم نے بتایا کہ رجسٹریشن کا عمل اطمینان بخش طریقے سے جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ 'کوویکسین' کا ایک تفصیلی پروٹوکول ہے۔ تحریری رضامندی اور دیگر رسمی کارروائی جلد مکمل کی جائے گی۔ پورے ملک کی نظریں جواہر لعل نہرو میڈیکل کالج کے اوپر ہیں ہمیں امید ہے کہ ہم امیدوں پر کھرے اتریں گے۔
ایک دس رکنی ٹیم بھی تشکیل کی گئی ہے جو علی گڑھ کے مختلف علاقوں میں جا کر لوگوں کو اس ٹرائل کے بارے میں تفصیلات مہیا کرا رہی ہے اور ان کو ٹرائل کی لیے رضا کار کے طور پر ان کے رجسٹریشن کے لئے بھی کوشش کر رہی ہے۔
پروفیسر شمیم کا کہنا ہے کہ جتنا جلد اس ٹرائل کو مکمل کر لیا جائے گا اتنی ہی جلد بازاروں میں ویکسین آجائے گی۔ ہمیں امید ہے فروری تک یہ ویکسین بازاروں میں آ جائے گی اگر جلد ٹرائل مکمل کر لیا گیا۔
پروفیسر محمد شمیم نے کہا کہ وائس چانسلر نے ویکسین کے تیسرے مرحلے کے ٹرائل کے لیے رضا کار کے طور 10 نومبر کو اپنا رجسٹریشن کرایا تھا۔ ٹرائل کے پروٹوکول کے مطابق ٹرائل میں شامل ہونے والے شخص کے لئے لازم ہے کہ اس نے چار ہفتہ کے اندر کوئی مروجہ/ تجرباتی ویکسین نہ لی ہو۔
ان کی حال میڈیکل ہسٹری سے معلوم ہوا ہے کہ چند روز قبل وائس چانسلر کو انفلوئنز اویکسین (فلاریکس - ٹیڑا) لگائی گئی تھی جو انہیں سال میں ایک بار دی جاتی ہے۔ چونکہ یہ ویکسین ٹرائل کے پروٹوکول کے منافی ہے لہذا وہ ٹرائل میں نہیں شامل ہو سکتے ہیں۔
انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ ( آئی سی ایم آر) سے سپانسر شدہ اس ٹرائل میں کوئی خطرہ نہیں ہے اور اس کے لیے انہوں نے درخواست کی ہے کہ اٹھارہ برس اور اس سے اوپر کے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو رجسٹریشن کرانے کے لیے آگے آنا چاہیے۔
مزید پڑھیں:
تبلیغی جماعت: سرکاری حلف نامے سے سپریم کورٹ غیرمتفق
پروفیسر شمیم نے مزید بتایا کہ وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے رضا کار کے طور پر اپنا پہلا رجسٹریشن کیا تھا لیکن وائس چانسلر کو ویکسین ٹرائل کے پروٹوکول کے منافی ہیں لہذا وہ ٹرائل میں شامل نہیں ہوسکتے۔