کورونا وائرس کی دوسری خوفناک لہر نے بے شمار لوگوں کو اپنی زد میں لے لیا ہے ایسے میں ہسپتال نظام اور طبی امداد کافی کمی دیکھی جا رہی ہے۔ ہسپتال نظام میں کیا تبدیلیاں درکار ہیں۔ حکومت کا اسے کیسے درست کر سکتی ہے اور کورونا وائرس کے مریض کس طریقے سے احتیاطی تدابیر کر خود کو کو بچا سکتے ہیں، ان تمام سوالوں پر بنارس ہندو یونیورسٹی کے سینئر ڈاکٹر اوم شنکر سے ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے خاص بات چیت کی۔
جن افراد میں اس مرض کی علامات پائی جا رہی ہیں وہ ڈاکٹروں کے رابطے میں رہیں، احتیاط برتیں، گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس سے متاثر افراد میں سے بیشتر لوگ ٹھیک ہو رہے ہیں۔ زیادہ تر لوگوں کو ہسپتال آنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ زیادہ تر افراد کو آکسیجن کی بھی ضرورت نہیں ہوتی ہے اگر وقت پر تدابیر اپنانے کی کوشش کریں اور مثبت خیالات اور ہمت سے کام لیں۔
ریمیڈی سیور انجکشن کی کالا بازاری عروج پر ہے۔ ڈاکٹرز بھی اس انجیکشن کو کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کے لیے دھڑلے سے لکھ رہے ہیں۔ ایسے میں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ یہ اس انجکشن سے کسی بھی مریض کی جان نہیں بچا سکتا ہے۔ اس کے جسم پر غلط اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں اور یہ کرونا وائرس کا انجکشن نہیں ہے۔ اس سے معمولی بہتری بھی نہیں آتی ہے۔ ایسے میں ایک بڑی رقم دے کر کے اس انجکشن کو حاصل کرنا اور پھر اسے استعمال کرنا ضروری نہیں ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اس انجکشن کو کرونا کے پرو ٹوکول سے باہر کر دینا چاہیے۔
جو لوگ گھر میں ہیں اور کورونا سے متاثر ہیں ایسے لوگ اپنا آکسیجن لیول چیک کرتے رہیں۔ 95 سے نیچے اگر آتا ہے تو آکسیجن سلنڈر کا انتظام کرنا شروع کردیں اور ڈاکٹر کے رابطے میں رہیں۔ ہر کسی کو آکسیجن کی ضرورت نہیں ہے۔ گھر پر ہی کچھ طبی کٹس رکھیں، کھانے پینے کا خیال رکھیں۔
انہوں نے کہا کہ کرونا کی دوسری لہر میں علامات بھی مختلف ہو چکی ہیں۔ بعض لوگوں کو لوز موشن کی شکایت ہے، کچھ لوگوں کو اچانک سے تیز بخار آ جاتا ہے۔ ایسے میں اگر کسی بھی قسم کی شکایت ہے یا تکلیف ہو تو ڈاکٹر سے رابطہ کریں اور ان کی نگہداشت میں میں علاج کرائیں۔