مشاعرہ کا افتتاح نعت نبی سے ہوا۔ اس کے بعد روبینہ حیات نے ملک کی حفاظت میں اپنی جان کی قربانی پیش کرنے والے جوانوں کے لیے خراج پیش کرتے ہوئے یہ اشعار پڑھا۔
" یہاں مذہب سیاست میں بہت مشغول تھے ہم سب،
ہمارے ملک کے خاطر جوانی دے گئے ہیں وہ سب۔"
اس کے بعد لکھنؤ کے مشہور نوجوان شاعر فاروق عادل نے پرتم آواز میں غزل پڑھی اور سامعین کو جھومنے پر مجبور کر دیا۔
خودکشی ہرگز نہ کرنا چاہیے، زندگی سے لڑ کر مرنا چاہیے
عشق میں ہوتا چلا آیا ہے یہ ، وعدہ کرنا اور مکرنا چاہیے
دل کے جیسا بے وفا کوئی نہیں، دل کہے جو وہ نہیں کرنا چاہیے
وہاں دشمنوں کی بڑی یاد آئی، جہاں دوستوں کی نوازش ہوئی
رقیبوں کو ہے چھوٹ محفل میں ان کے، میرے آنے جانے میں بندش ہوئی
لکھنو کے شہرت یافتہ شاعر سلیم طابش نے حالات حاضرہ میں، جس طرح سے سماج میں، ہمارے ملک میں مذہب کے نام پر سیاست کے نام پر ایک انسان دوسرے انسان کے خون کا پیاسا ہے، اس غلط فعل پر ضرب لگاتے ہوئے یوں کہا کہ
"دھرم اور ذات کے نام پر، یعنی جذبات کے نام پر
خون کا پیاسا ہے، آج کل آدمی آدمی کے لیے
سلیم تابش کے اشعار سے محفل میں خاموشی چھا گئی۔ اس کو توڑنے کے لیے مشہور شاعر انل اناڑی کو اسٹیج پر بلایا گیا۔ انہوں نے اپنے مزاحیہ کلام سے محفل میں نیا رنگ بھر دیا۔
اس پروگرام میں مہمان خصوصی کے طور پر سابق ڈی جی پی اترپردیش رضوان احمد، اترپردیش اردو اکادمی کی چیئرپرسن آصفہ زمانی اور سکریٹری ایس رضوان نے شرکت کی جبکہ مشاعرے کی صدارت صوفیہ پروین نے کی۔