ETV Bharat / state

خواتین کی نئی حسیات، روایت، جدیدیت اور تاریخ نویسی پر کورس کی تکمیل

گلوبل انیشیئیٹیو آف اکیڈمک نیٹ ورکس (گیان)، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے زیراہتمام ایک ہفتہ کا آن لائن کورس بعنوان ”خواتین کی نئی حسیات: انیسویں اور بیسویں صدی کے شمال مغربی ہندوستان (اور پاکستان) میں روایت، جدیدیت، اور صنف“، تکمیل کو پہنچا۔

Etv Bharat
Etv Bharat
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Dec 20, 2023, 10:42 PM IST

علیگڑھ: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے زیراہتمام ایک ہفتہ کا آن لائن کورس بعنوان ”خواتین کی نئی حسیات: انیسویں اور بیسویں صدی کے شمال مغربی ہندوستان (اور پاکستان) میں روایت، جدیدیت، اور صنف“، میں مجموعی طور سے 12سیشن ہوئے۔ جدید اور عصر حاضر کے جنوبی ایشیا کی مؤرخ اور کورس کی غیرملکی فیکلٹی ممبر پروفیسر سارہ فرانسس ڈیبورا انصاری (رائل ہولوے، لندن یونیورسٹی، یو کے) نے کورس کے دوران سات خطبات دئے، جب کہ سنٹر آف ایڈوانسڈ اسٹڈی، شعبہ تاریخ، اے ایم یو کی چیئرپرسن اور کوآرڈینیٹر پروفیسر گلفشاں خان نے پانچ سیشن میں خطبات دئے۔ یہ کورس شرکاء کو خواتین اور صنفی تاریخ سے متعارف کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا جس میں منتخب مآخذ کا تجزیہ اور موجودہ تاریخ نگاری کا تنقیدی جائزہ شامل تھا تاکہ وہ انیسویں اور بیسویں صدی کے دوران تقسیم ہند سے قبل اور بعد کے ہندوستان میں جنوبی ایشیائی خواتین کے تجربات کو سمجھ سکیں۔


پروفیسر سارہ انصاری نے اپنے پہلے لیکچر کا آغاز روایت اور جدیدیت جیسی اصطلاحات کی تشریح و توضیح سے کیا، جس میں انھوں نے صنف سے دونوں کے تعلق کو خاص طور سے نوآبادیاتی دور کے جنوبی ایشیا کے تناظر میں واضح کیا۔ انیسویں صدی میں برصغیر میں ’خاتون کے سوال‘ نے زور پکڑا، لیکن سوال یہ نہیں تھا کہ ’خواتین کیا چاہتی ہیں‘ بلکہ اس بات پر بحث تھی کہ ہندوستان کی ترقی کے لیے ان کے لیے ’جدید‘ ہونا کس حد تک ضروری ہے۔ پروفیسر انصاری نے کہا کہ برطانوی اور ہندوستانی دونوں معاصرین نے اس بات کو محسوس کیا کہ خواتین کو اس لحاظ سے نہ صرف اپنی بھلائی کے لیے، بلکہ معاشرے کی بہتری کے لیے ’بچائے جانے‘ کی ضرورت ہے۔ پروفیسر انصاری نے دوسرے لیکچر میں خاص طور پر خواتین کی تعلیم کے سوال پر توجہ مرکوز کی، جب کہ تیسرے لیکچر میں انھوں نے قومیت اور خواتین کے درمیان تعلق پر گفتگو کی۔

چوتھے لیکچر میں جنوبی ایشیا سے آگے کی ہلچل پر توجہ مرکوز کی گئی جس نے ہندوستان اور ہندوستانی خواتین کو دنیا کے دیگر مقامات سے مربوط کیا۔ پروفیسر انصاری نے بین الاقوامی تنظیموں اور کانفرنسوں میں ہندوستانی خواتین کی شمولیت اور خواتین کے حق رائے دہی سے متعلق مباحثوں میں ان کی شمولیت کے بارے میں گفتگو کی۔ انہوں نے 1931 میں لاہور میں منعقدہ آل ایشین ویمنز کانفرنس اور اس کے ہندوستانی منتظمین کے اہم کردار کا ذکر کیا۔

پانچویں لیکچر میں انھوں نے خاص طور سے پہلی جنگ عظیم کے بعد ہندوستان میں قائم ہونے والی خواتین کی تنظیموں پر گفتگو کی، جو دراصل گزشتہ صدی میں اصلاحی سوچ رکھنے والے افراد اور اداروں کی ابتدائی کوششوں کا نتیجہ تھی۔ چھٹے لیکچر میں ہندوستان کی قومی تحریکوں میں خواتین کی شمولیت کی پیچیدہ کہانی پر روشنی ڈالی گئی۔ پروفیسر انصاری نے ہندوستان میں 1947 تک کی مدت میں رونما ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لیا، جس میں خواتین کی شرکت وقتاً فوقتاً انتہائی اہم ثابت ہوئی اور اس نے قوم پرستانہ مقصد کو تقویت دیتے ہوئے ہندوستان پر حکومت کرنے کے برطانوی حق پر سوال کھڑے کئے۔

پروفیسر انصاری کا ساتواں لیکچر شہریت سے متعلق امور اور اس سے پیدا ہونے والے حقوق اور ذمہ داریوں پر مرکوز تھا۔ پروفیسر گلفشاں خان نے اپنے پانچ سیشن میں سے پہلے سیشن میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شمالی ہند کے معززین، اشراف مسلمانوں نے، برصغیر کے دوسرے حصوں کے ہم منصبوں جیسے کہ بنگال کے بھدرلوک کی مانند اپنے معاشرے میں خواتین کی حیثیت کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا۔ پروفیسر گلفشاں خان نے بنیادی طور پر ہندوستان کے اردو بولنے والے دانشوروں کے اصلاحی ایجنڈوں پر روشنی ڈالی جیسے کہ علی گڑھ تحریک کے قدآور رہنما سید احمد خاں (1817-1898) اور دیوبندی عالم دین اور بہشتی زیور کے مصنف مولانا اشرف علی تھانوی (1864-1943)۔

پہلے دو خطبات میں توجہ مسلم مصلحین کی پرانی نسل کے نمائندوں سید احمد خاں، ان کے ہم عصر نذیر احمد (1833-1912) اور خواجہ الطاف حسین حالی (1837-1914) پر رہی جو 1857 سے قبل پیدا ہوئے تھے۔ تیسرے اور چوتھے خطبات میں ان مصلحین پر توجہ مرکوز کی گئی جو 1857 کے آس پاس یا اس کے بعد پیدا ہوئے اور ان کی تعلیم اسلامی اور مغربی تعلیم کا امتزاج تھی۔ پروفیسر گلفشاں خان نے کہا ”وہ خواتین کی تعلیم کے بڑے حامی تھے۔ انہوں نے خواتین کے لئے کتابیں لکھیں، مقامی زبانوں میں رسائل و جرائد جاری کئے اور ایسی سوسائٹیوں اور اسکولوں کی بنیاد رکھی جو ان کے اہداف کو حاصل کرنے میں مددگار ہوئے“۔

یہ بھی پڑھیں: مسلم اکثریتی علاقہ بدحالی کا شکار،انتظامیہ پر عدم توجہی کا شکار


پروفیسر گلفشاں خان نے اس سلسلہ میں سید ممتاز علی (1860-1935) کے رسالہ ”تہذیب النسواں“ کا ذکر کیا جو 1898 میں ان کی اہلیہ محمدی بیگم (1878-1908) کی ادارت میں شروع ہوا، شیخ عبداللہ (1878-1965) اور ان کی اہلیہ وحید جہاں بیگم (1886-1939) کے رسالے ”خاتون“ کا حوالہ دیا جو 1904 میں علی گڑھ میں شروع ہوا، اور اردو کے مشہور ناول نگار راشد الخیری (1868-1936) کے 1908 میں دہلی سے شروع کردہ ادبی ماہنامہ ”عصمت“ کا بھی انھوں نے ذکر کیا۔

علیگڑھ: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے زیراہتمام ایک ہفتہ کا آن لائن کورس بعنوان ”خواتین کی نئی حسیات: انیسویں اور بیسویں صدی کے شمال مغربی ہندوستان (اور پاکستان) میں روایت، جدیدیت، اور صنف“، میں مجموعی طور سے 12سیشن ہوئے۔ جدید اور عصر حاضر کے جنوبی ایشیا کی مؤرخ اور کورس کی غیرملکی فیکلٹی ممبر پروفیسر سارہ فرانسس ڈیبورا انصاری (رائل ہولوے، لندن یونیورسٹی، یو کے) نے کورس کے دوران سات خطبات دئے، جب کہ سنٹر آف ایڈوانسڈ اسٹڈی، شعبہ تاریخ، اے ایم یو کی چیئرپرسن اور کوآرڈینیٹر پروفیسر گلفشاں خان نے پانچ سیشن میں خطبات دئے۔ یہ کورس شرکاء کو خواتین اور صنفی تاریخ سے متعارف کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا جس میں منتخب مآخذ کا تجزیہ اور موجودہ تاریخ نگاری کا تنقیدی جائزہ شامل تھا تاکہ وہ انیسویں اور بیسویں صدی کے دوران تقسیم ہند سے قبل اور بعد کے ہندوستان میں جنوبی ایشیائی خواتین کے تجربات کو سمجھ سکیں۔


پروفیسر سارہ انصاری نے اپنے پہلے لیکچر کا آغاز روایت اور جدیدیت جیسی اصطلاحات کی تشریح و توضیح سے کیا، جس میں انھوں نے صنف سے دونوں کے تعلق کو خاص طور سے نوآبادیاتی دور کے جنوبی ایشیا کے تناظر میں واضح کیا۔ انیسویں صدی میں برصغیر میں ’خاتون کے سوال‘ نے زور پکڑا، لیکن سوال یہ نہیں تھا کہ ’خواتین کیا چاہتی ہیں‘ بلکہ اس بات پر بحث تھی کہ ہندوستان کی ترقی کے لیے ان کے لیے ’جدید‘ ہونا کس حد تک ضروری ہے۔ پروفیسر انصاری نے کہا کہ برطانوی اور ہندوستانی دونوں معاصرین نے اس بات کو محسوس کیا کہ خواتین کو اس لحاظ سے نہ صرف اپنی بھلائی کے لیے، بلکہ معاشرے کی بہتری کے لیے ’بچائے جانے‘ کی ضرورت ہے۔ پروفیسر انصاری نے دوسرے لیکچر میں خاص طور پر خواتین کی تعلیم کے سوال پر توجہ مرکوز کی، جب کہ تیسرے لیکچر میں انھوں نے قومیت اور خواتین کے درمیان تعلق پر گفتگو کی۔

چوتھے لیکچر میں جنوبی ایشیا سے آگے کی ہلچل پر توجہ مرکوز کی گئی جس نے ہندوستان اور ہندوستانی خواتین کو دنیا کے دیگر مقامات سے مربوط کیا۔ پروفیسر انصاری نے بین الاقوامی تنظیموں اور کانفرنسوں میں ہندوستانی خواتین کی شمولیت اور خواتین کے حق رائے دہی سے متعلق مباحثوں میں ان کی شمولیت کے بارے میں گفتگو کی۔ انہوں نے 1931 میں لاہور میں منعقدہ آل ایشین ویمنز کانفرنس اور اس کے ہندوستانی منتظمین کے اہم کردار کا ذکر کیا۔

پانچویں لیکچر میں انھوں نے خاص طور سے پہلی جنگ عظیم کے بعد ہندوستان میں قائم ہونے والی خواتین کی تنظیموں پر گفتگو کی، جو دراصل گزشتہ صدی میں اصلاحی سوچ رکھنے والے افراد اور اداروں کی ابتدائی کوششوں کا نتیجہ تھی۔ چھٹے لیکچر میں ہندوستان کی قومی تحریکوں میں خواتین کی شمولیت کی پیچیدہ کہانی پر روشنی ڈالی گئی۔ پروفیسر انصاری نے ہندوستان میں 1947 تک کی مدت میں رونما ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لیا، جس میں خواتین کی شرکت وقتاً فوقتاً انتہائی اہم ثابت ہوئی اور اس نے قوم پرستانہ مقصد کو تقویت دیتے ہوئے ہندوستان پر حکومت کرنے کے برطانوی حق پر سوال کھڑے کئے۔

پروفیسر انصاری کا ساتواں لیکچر شہریت سے متعلق امور اور اس سے پیدا ہونے والے حقوق اور ذمہ داریوں پر مرکوز تھا۔ پروفیسر گلفشاں خان نے اپنے پانچ سیشن میں سے پہلے سیشن میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شمالی ہند کے معززین، اشراف مسلمانوں نے، برصغیر کے دوسرے حصوں کے ہم منصبوں جیسے کہ بنگال کے بھدرلوک کی مانند اپنے معاشرے میں خواتین کی حیثیت کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا۔ پروفیسر گلفشاں خان نے بنیادی طور پر ہندوستان کے اردو بولنے والے دانشوروں کے اصلاحی ایجنڈوں پر روشنی ڈالی جیسے کہ علی گڑھ تحریک کے قدآور رہنما سید احمد خاں (1817-1898) اور دیوبندی عالم دین اور بہشتی زیور کے مصنف مولانا اشرف علی تھانوی (1864-1943)۔

پہلے دو خطبات میں توجہ مسلم مصلحین کی پرانی نسل کے نمائندوں سید احمد خاں، ان کے ہم عصر نذیر احمد (1833-1912) اور خواجہ الطاف حسین حالی (1837-1914) پر رہی جو 1857 سے قبل پیدا ہوئے تھے۔ تیسرے اور چوتھے خطبات میں ان مصلحین پر توجہ مرکوز کی گئی جو 1857 کے آس پاس یا اس کے بعد پیدا ہوئے اور ان کی تعلیم اسلامی اور مغربی تعلیم کا امتزاج تھی۔ پروفیسر گلفشاں خان نے کہا ”وہ خواتین کی تعلیم کے بڑے حامی تھے۔ انہوں نے خواتین کے لئے کتابیں لکھیں، مقامی زبانوں میں رسائل و جرائد جاری کئے اور ایسی سوسائٹیوں اور اسکولوں کی بنیاد رکھی جو ان کے اہداف کو حاصل کرنے میں مددگار ہوئے“۔

یہ بھی پڑھیں: مسلم اکثریتی علاقہ بدحالی کا شکار،انتظامیہ پر عدم توجہی کا شکار


پروفیسر گلفشاں خان نے اس سلسلہ میں سید ممتاز علی (1860-1935) کے رسالہ ”تہذیب النسواں“ کا ذکر کیا جو 1898 میں ان کی اہلیہ محمدی بیگم (1878-1908) کی ادارت میں شروع ہوا، شیخ عبداللہ (1878-1965) اور ان کی اہلیہ وحید جہاں بیگم (1886-1939) کے رسالے ”خاتون“ کا حوالہ دیا جو 1904 میں علی گڑھ میں شروع ہوا، اور اردو کے مشہور ناول نگار راشد الخیری (1868-1936) کے 1908 میں دہلی سے شروع کردہ ادبی ماہنامہ ”عصمت“ کا بھی انھوں نے ذکر کیا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.