لکھنؤ: دھارمک جن مورچہ کی جانب سے لکھنو کے قیصر باغ میں واقع گاندھی بھون، کے ’کرن بھائی آڈیٹوریم‘ میں ’فرقہ وارانہ ہم آہنگی میں مذہب کا کردار‘ کے عنوان پر ایک سمپوزیم کا انعقاد کیا گیا۔ سمپوزیم میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے جماعت اسلامی ہند کے اسسٹنٹ سکریٹری وارث حسین نے کہا کہ سماجی چیلنجوں کے پیش نظر ہمیں باہمی افہام و تفہیم، ایک دوسرے کے عقیدے، ثقافت اور روایات کو جانتے ہوئے اتفاق رائے سے مسائل پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ چونکہ ہم ایک ایسے معاشرہ سے ہیں جہاں لوگوں کی ایک بڑی تعداد اپنے پسند کے مذہب پر عمل پیرا ہے، اس لیے مذہبی رہنماؤں کا کردار اور ذمہ داری اہم ہو جاتی ہے۔
مذہبی رہنماؤں کو ایک ساتھ مل کر اخلاقی اقدار، فرقہ وارانہ ہم آہنگی، باہمی احترام اور باہمی اعتماد کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ گرودوارا ناکا ہنڈولا کے چیف گرنتھی گیانی سکھ دیو سنگھ نے کہا کہ جب تک آپ کے ذہن میں اچھے ارادے نہیں ہوں گے تب تک آپ کا کوئی بھلا نہیں ہو سکتا۔ اگر آپ کسی کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں گے تو آپ کے ساتھ بھی لوگ حسن سلوک کریں گے۔ آج معاشرے میں بہت سی برائیاں پھیلی ہوئی ہیں، ان برائیوں کو ختم کرنے میں مذہبی رہنماؤں کا کردار اہم ہے۔ معاشرے کو آگاہ کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔
عیسائی مذہبی رہنما فادر آر۔ بی۔ رائے نے کہا کہ ہم ایک خاندان کا حصہ ہیں، اگر خاندان میں کوئی مسئلہ درپیش ہے تو خاندان کے سربراہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے آگے آئیں۔ بودھ سماج کے نمائندے ہری لال بودھ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جو صحیح بولتا ہے اور صحیح کرتا ہے اسے کبھی خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس سیمینار میں جو باتیں سامنے آئی ہیں وہ وقت کی ضرورت ہیں۔ یہ پیغام یہاں سے آگے بڑھ کر ہر گاؤں تک پہنچنا چاہیے۔
جین مذہب کے رہنما پی کے جین نے کہا کہ ہمارا ضمیر کبھی بھی ہمیں گناہ کرنے کے لیے نہیں کہتا، لیکن ہم گناہ گار کیوں ہیں اس کا مطلب ہے کہ ہم خود اپنے مذہب کی پیروی نہیں کرتے۔ ہم صرف مذہبی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں جبکہ ہمارا کوئی کام مذہب کے مطابق نہیں ہوتا ہے۔ شیعہ چاند کمیٹی کے صدر مولانا سیف عباس نقوی نے کہا کہ معاشرے میں بہت کم لوگ ہیں جو آپس میں نفرت پھیلانے کا کام کر رہے ہیں، ابھی بھی معاشرے میں محبت کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔ اپنے فائدے کے لیے بھائی کو بھائی سے لڑانا، سیاسی فائدے کے لیے معاشرے میں نفرت پھیلانا قابل مذمت ہے۔ یہ ملک ہمیشہ سے باہمی محبت اور ہم آہنگی کا گہوارہ رہا ہے۔ اس ورثے کو بچانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
مزید پڑھیں: 'ملک کی فضا کو پر امن بنانے کے لیے سیکولرازم سمجھنے کی ضرورت'
جامعۃ الفلاح کے ناظم مولانا محمد طاہر مدنی نے کہا کہ مختلف مذاہب کے رہنماؤں کو یہ پیغام عوام تک پہنچانا چاہیے اور اگر آپس میں کوئی اختلافات پیدا ہو رہے ہیں تو انہیں ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ معاشرے کے اندر نفرت اور فساد ہوگا تو معاشرہ کمزور ہوگا، اس لیے ہمیں اپنے معاشرے اور ملک کو کمزور نہیں ہونے دینا چاہیے۔ سمپوزیم کے شروع میں اسداللہ اعظمی نے افتتاحی کلمات پیش کیے، نظامت محمد صابر خان نے کی۔