ETV Bharat / state

علی گڑھ: شہر کا نام تبدیل کرنا جہالت ہے

علی گڑھ میونسپل کارپوریشن نے علی گڑھ کا نام ہری گڑھ کرنے کی تجویز کو منظوری دے دی ہے۔ اب یہ تجویز حکومت کے پاس بھیجی جائے گی- حکومت کی حتمی منظوری کے بعد علی گڑھ کا نام ہری گڑھ ہوسکتا ہے۔ جس سے متعلق پدم بھوشن معروف مؤرخ پروفیسر عرفان حبیب نے کہا 'شہروں کا نام تبدیل کرنا جہالت ہے'۔Historian Irfan Habib calls Aligarh name change ignorance

شہر کا نام تبدیل کرنا جہالت ہے: پروفیسر عرفان حبیب
شہر کا نام تبدیل کرنا جہالت ہے: پروفیسر عرفان حبیب
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Nov 11, 2023, 5:25 PM IST

Updated : Nov 11, 2023, 6:01 PM IST

شہر کا نام تبدیل کرنا جہالت ہے: پروفیسر عرفان حبیب

علیگڑھ: صلع علی گڑھ میونسپل کارپوریشن کی پہلی میٹنگ ہنگامہ آرائی کے ساتھ شروع ہوئی تھی اس دوران بی جے پی کے کونسلر سنجے پنڈت نے علی گڑھ کا نام ہری گڑھ کرنے کی تجویز پیش کی۔ تاریخی تعلیم اور تالوں کے شہر کا نام بدلنے کی تجویز پیش کیے جانے پر اپوزیشن کے کونسلروں نے ہنگامہ شروع کر دیا۔ بی جے پی کے نام بدلنے کے ایجنڈے کی زبردست مخالفت کی گئی۔ تاہم کارپوریشن میں بی جے پی کے کونسلروں کی اکثریت ہونے کے سبب یہ تجویز با آسانی منظور ہوگئی۔ اب یہ تجویز حکومت کو بھیجی جائے گی۔ حکومت کی منظوری ملنے کے بعد علی گڑھ شہر اور ضلع نئے نام سے جانا جاسکتا ہے۔

واضح ریے 'علی گڑھ کا نام ہری گڑھ کبھی نہیں رہا، علیگڑھ سے پہلے اس کا نام 1200ء سے 1803 تک کول تھا۔ 1803 میں علی گڑھ شہر کا نام جرنل نجف علی خان کے نام پر مراٹھوں نے 'علی گڑھ' رکھا۔ علی گڑھ شہر پوری دنیا میں اپنے تالے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے ہی اس شہر کو پوری دنیا میں ایک منفرد شناخت اور پہچان دلائی ہے۔ عالمی شہرت یافتہ پدم بھوشن معروف مؤرخ پروفیسر عرفان حبیب نے ای ٹی وی بھارت کے نمائندے کو خصوصی گفتگو کے دوران سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا شہروں کے نام تبدیل کرنے کو جہالت بتایا۔

معروف مورخ پروفیسر عرفان حبیب کا کہنا ہے کہ علیگڑھ کا نام مغل دور تک کول تھا اور تقریباً 1803؍کے قریب جب مرہٹھوں کا یہاں قبضہ ہوا تو انہوں نے جو کنٹونمنٹ جو یہاں بنایا جو (اب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا ایس ایس ہال) تو اسکا نام انہوں علی گڑھ رکھا اور پرانے شہر کا نام کول ہی تھا اور جب 1803 میں انگریزوں یہاں قبضہ کیا تو انہوں نے کہا کہ دو نام تو نہیں ہونا چاہیے تو انہوں نے شہر کا نام بھی علی گڑھ رکھ دیا ۔وہیں نام تبدیلی کے سلسلہ میں انہوں نے کہا یہ ایک کوشش کر رہے ہیں لیکن اسکا تاریخ سے کوئی تعلق نہیں ہے ،انہوں نے بغیر کسی کا نام لیے کہا کہ شاید انہیں معلوم بھی نہ ہوگا کہ مرہٹھوں نے کبھی یہاں حکومت کی ہے، انہوں نے نام تبدیلی کو جہالت بھی بتایا۔

واضح رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب علی گڑھ کا نام ہری گڑھ کرنے پر بات ہوئی ہو۔ ماضی میں بھی نائب وزیر اعلیٰ نے کلیان سنگھ کی برسی کے موقع پر منعقدہ ہندو گورو دیوس میں بھی یہی پیغام دیا تھا۔ علی گڑھ کے نام کی تبدیلی کا یہ فیصلہ آئندہ لوک سبھا انتخابات کے پیش نظر سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی طور پر دیکھا جارہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اے ایم یو کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کرنے والے یوٹیوبر پر کارروائی کا مطالبہ


علیگڑھ کا نام پہلے کول تھا اس کا نام کول کیوں پڑا یہ کسی کو نہیں معلوم۔ پروفیسر عرفان حبیب نے مزید کہا کہ 1200ء سے 1803 تک اس کا نام کول تھا اور بعد میں علیگڑھ پڑگیا، ہری گڑھ کا تو کوئی سوال ہی نہیں ہے۔ 1200ء سے لے کر 1803 تک علی گڑھ کا نام کول تھا۔ مراٹھاؤں نے جرنل نجف علی خان کے نام پر علی گڑھ رکھا۔ علی گڑھ کا نام ہری گڑھ کبھی نہیں رہا۔

شہر کا نام تبدیل کرنا جہالت ہے: پروفیسر عرفان حبیب

علیگڑھ: صلع علی گڑھ میونسپل کارپوریشن کی پہلی میٹنگ ہنگامہ آرائی کے ساتھ شروع ہوئی تھی اس دوران بی جے پی کے کونسلر سنجے پنڈت نے علی گڑھ کا نام ہری گڑھ کرنے کی تجویز پیش کی۔ تاریخی تعلیم اور تالوں کے شہر کا نام بدلنے کی تجویز پیش کیے جانے پر اپوزیشن کے کونسلروں نے ہنگامہ شروع کر دیا۔ بی جے پی کے نام بدلنے کے ایجنڈے کی زبردست مخالفت کی گئی۔ تاہم کارپوریشن میں بی جے پی کے کونسلروں کی اکثریت ہونے کے سبب یہ تجویز با آسانی منظور ہوگئی۔ اب یہ تجویز حکومت کو بھیجی جائے گی۔ حکومت کی منظوری ملنے کے بعد علی گڑھ شہر اور ضلع نئے نام سے جانا جاسکتا ہے۔

واضح ریے 'علی گڑھ کا نام ہری گڑھ کبھی نہیں رہا، علیگڑھ سے پہلے اس کا نام 1200ء سے 1803 تک کول تھا۔ 1803 میں علی گڑھ شہر کا نام جرنل نجف علی خان کے نام پر مراٹھوں نے 'علی گڑھ' رکھا۔ علی گڑھ شہر پوری دنیا میں اپنے تالے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے ہی اس شہر کو پوری دنیا میں ایک منفرد شناخت اور پہچان دلائی ہے۔ عالمی شہرت یافتہ پدم بھوشن معروف مؤرخ پروفیسر عرفان حبیب نے ای ٹی وی بھارت کے نمائندے کو خصوصی گفتگو کے دوران سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا شہروں کے نام تبدیل کرنے کو جہالت بتایا۔

معروف مورخ پروفیسر عرفان حبیب کا کہنا ہے کہ علیگڑھ کا نام مغل دور تک کول تھا اور تقریباً 1803؍کے قریب جب مرہٹھوں کا یہاں قبضہ ہوا تو انہوں نے جو کنٹونمنٹ جو یہاں بنایا جو (اب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا ایس ایس ہال) تو اسکا نام انہوں علی گڑھ رکھا اور پرانے شہر کا نام کول ہی تھا اور جب 1803 میں انگریزوں یہاں قبضہ کیا تو انہوں نے کہا کہ دو نام تو نہیں ہونا چاہیے تو انہوں نے شہر کا نام بھی علی گڑھ رکھ دیا ۔وہیں نام تبدیلی کے سلسلہ میں انہوں نے کہا یہ ایک کوشش کر رہے ہیں لیکن اسکا تاریخ سے کوئی تعلق نہیں ہے ،انہوں نے بغیر کسی کا نام لیے کہا کہ شاید انہیں معلوم بھی نہ ہوگا کہ مرہٹھوں نے کبھی یہاں حکومت کی ہے، انہوں نے نام تبدیلی کو جہالت بھی بتایا۔

واضح رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب علی گڑھ کا نام ہری گڑھ کرنے پر بات ہوئی ہو۔ ماضی میں بھی نائب وزیر اعلیٰ نے کلیان سنگھ کی برسی کے موقع پر منعقدہ ہندو گورو دیوس میں بھی یہی پیغام دیا تھا۔ علی گڑھ کے نام کی تبدیلی کا یہ فیصلہ آئندہ لوک سبھا انتخابات کے پیش نظر سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی طور پر دیکھا جارہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اے ایم یو کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کرنے والے یوٹیوبر پر کارروائی کا مطالبہ


علیگڑھ کا نام پہلے کول تھا اس کا نام کول کیوں پڑا یہ کسی کو نہیں معلوم۔ پروفیسر عرفان حبیب نے مزید کہا کہ 1200ء سے 1803 تک اس کا نام کول تھا اور بعد میں علیگڑھ پڑگیا، ہری گڑھ کا تو کوئی سوال ہی نہیں ہے۔ 1200ء سے لے کر 1803 تک علی گڑھ کا نام کول تھا۔ مراٹھاؤں نے جرنل نجف علی خان کے نام پر علی گڑھ رکھا۔ علی گڑھ کا نام ہری گڑھ کبھی نہیں رہا۔

Last Updated : Nov 11, 2023, 6:01 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.