علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سو سال مکمل ہونے پر پرانی چنگی کے قریب بطور یادگار تعمیر ہونے والے گیٹ کا نام "سینٹینری گیٹ" رکھے جانے کی توثیق وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے یونیورسٹی ایگزیکٹیو کونسل کی جانب سے کی ہے۔
آج سے تقریباً 20 سال قبل یونیورسٹی انتظامیہ بلاک کے قریب ایک گیٹ کی تعمیر ہوئی، جس کا نام باب سید رکھا گیا۔ جس کے بعد صد سالہ تقریبات کے موقع پر اسی کی طرز پر دوسرے گیٹ کی تعمیر تقریباً مکمل ہو چکی ہے۔
اے ایم یو شعبہ رابطہ عامہ کے ایسوسی ایٹ ممبر انچارج ڈاکٹر راحت ابرار نے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ یونیورسٹی نے 100 سالہ جشن منانے کا فیصلہ کیا تو ایک میٹنگ بھی کی، جس میں سب شریک ہوئے تو میٹنگ میں سوال اٹھا کہ کیا اس صدی کی تقریبات کو یاد گار بنانے کے لیے کیا جائے، تو وہاں ایک مشورہ بھی آیا تھا۔ کیوں نہ ایک ایسا گیٹ بنایا جائے، ایک ایسی یادگار بنائی جائے جس کو تاریخ میں یاد کیا جا سکے اور اسی مقصد کے لیے ایک سینٹینری گیٹ بنکر تقریباً تیار ہو چکا ہے اور یونیورسٹی کے لیے ایک بڑا اعزاز ہوگا۔ جس طرح یونیورسٹی میں باب سید ہے، اب اس صدی تقریبات کا ایک بڑا حصہ ہوگا۔
یونیورسٹی شعبہ دینیات کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر ریحان اختر نے خصوصی گفتگو میں بتایا آپ نے دیکھا ہو گا، جس طریقے سے پوری دنیا میں باب سید چمکتا اور دھمکتا رہتا ہے۔ اسی طریقہ سے ہمارے پروفیسر طارق منصور صاحب نے پرانی چنگی پر ایک بہت زبردست اور بہت خوبصورت ایرانین اسٹائل میں اور باہر بڑی بڑی جو یونیورسٹی ہیں اس طرز پر باقاعدہ ایک گیٹ کی صد سالہ کے موقع پر سنگ بنیاد بھی رکھی اور آج وہ گیٹ اپنے ابتدائی مرحلے سے ہو کر اقدام کو پہنچنے والا ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ تحفہ علی برادری کے لیے بھی اور بھارت کے مسلمانوں کے لیے بہت بڑا تحفہ ہوگا۔ اس کو دینے کے لیے پروفیسر طارق منصور صاحب اور ان کی مجلس منتظمہ تمام لوگ لائک مبارکباد ہیں۔
مزید پڑھیں:
نویں جماعت کی طالبہ کا انوکھا کارنامہ۔۔۔
ڈاکٹر ریحان مزید کہا یونیوسٹی اپنے اگلے سو سالوں میں مزید تعلیمی بیداری مسلمانوں میں اور دوسری برادری میں بھی تمام لوگوں کو علم کی شعاؤں کی طرف لے آئے گا اور یہ جو باب بن رہا ہے اس سے علم کی شعاعیں اور علم کے راستے اور لوگوں کے لئے کھولے گا۔