ETV Bharat / state

اے ایم یو اور اس کے اقلیتی درجہ کا معاملہ

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Jan 11, 2024, 9:37 PM IST

Updated : Jan 12, 2024, 10:40 AM IST

Case of AMU and its minority status عالمی شہرت یافتہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو برقرار رکھنے کی سماعت گزشتہ تین روز سے سپریم کورٹ میں چل رہی ہے۔

اے ایم یو اور اس کے اقلیتی درجہ کا معاملہ
اے ایم یو اور اس کے اقلیتی درجہ کا معاملہ

اے ایم یو اور اس کے اقلیتی درجہ کا معاملہ

علیگڑھ: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو)، شعبہ تاریخ کے پروفیسر محمد سجاد نے ای ٹی بی بھارت سے خصوصی گفتگو میں بتایا محمڈن اینگلو اورینٹ (ایم اے او) کالج جو 1920 میں پارلیمانی ایکٹ کے تحت علی مسلم یونیورسٹی بنا کو ہی مسلم یونیورسٹی کا درجہ ملا کیونکہ اس وقت برطانوی حکومت سمیت مسلم اور تعاون کرنے والے غیر مسلم بھی جانتے تھے کہ اس ادارے کی بنیاد سر سید نے مسلمانوں کے لیے رکھی تھی اس کو مسلمانوں کی جدید تعلیم کی ترقی کے لیے قائم کیا گیا تھا۔

عالمی شہرت یافتہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے اقلیتی کردار کو برقرار رکھنے کی سماعت گزشتہ تین روز سے سپریم کورٹ میں چل رہی ہے۔ اے ایم یو شعبہ تاریخ کے پروفیسر محمد سجاد نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو میں اے ایم یو کے اقلیتی درجہ سے متعلق بتایا محمڈن اینگلو اورینٹ (ایم اے او) کی بنیاد 1877 میں رکھی گئی جو کو 1920 میں پارلیمانی ایکٹ کے تحت یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہوا اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے نام سے جانا گیا، تو 1877 سے 1898 تک یہ بات واضح تھی کہ مسلمانوں کی جدید تعلیم کی پسماندگی کو دور کرنے کے لئے یہ ادارہ قائم کیا جا رہا ہے۔

جس کے قیام میں مسلمانوں کے ساتھ برطانوی حکومت نے بھی تعاون کیا اور غیر مسلم نے بھی تعاون اس لئے ہی کیا تھا کہ مسلمان جدید تعلیم کے میدان میں بھی آگے آئے، یعنی غیر مسلم بھی تعاون مسلم کی تعلیمی ترکی کے لئے دے رہے تھے۔ پروفیسر سجاد نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اسی برطانوی حکومت (1917-22) کے دور میں ملک میں دیگر یونیورسٹیاں بھی قائم کی گئی لکھنو یونیورسٹی، پٹنہ یونیورسٹی اور ڈھاکا یونیورسٹی ان یونیورسٹی میں سے کسی بھی یونیورسٹی کو مسلم یونیورسٹی کا درجہ نہیں دیا گیا جبکہ لکھنؤ یونیورسٹی کی تعمیر میں راجہ محمود آباد زیادہ وقت دے رہے تھے جبکی اس وقت وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے لیکن وہ زیادہ تر وقت لکھنؤ میں گزارتے تھے۔

ایم اے او کالج جو بعد میں علی مسلم یونیورسٹی بنا کو ہی مسلم یونیورسٹی کا درجہ ملا کیونکہ اس وقت برطانوی حکومت سمیت مسلم اور غیر مسلم بھی جانتے تھے کہ اس ادارے کی بنیاد سر سید نے مسلمانوں کے لیے رکھی تھی اور اس کو مسلمانوں کی جدید تعلیم کی ترقی کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ 1951 میں اے ایم یو ایکٹ ترمیمی بل پیش کیا گیا جس میں اے ایم یو کی اعلی گورننگ باڈی اے ایم یو کورٹ کے رکنیت غیر مسلمانوں کے لیے بھی کی کردی گئی، جو پہلے صرف مسلمانوں کے لیے ہی تھی۔ 1967 میں عزیز باشا مقدمہ میں یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو یہ کہہ کر ختم کر دیا گیا کہ اس ادارے کا قیام تو مسلمانوں نے کیا تھا لیکن اس کا انتظام مسلم کے ساتھ غیر مسلم بھی کرتے ہیں اس لیے اس ادارے کا اقلیتی حثیت ختم کردی گئ۔

1981 میں پارلیمنٹ میں ایک ترمیمی بل پاس کیا گیا جس میں کہا گیا کہ اے ایم یو کو مسلمانوں نے مسلمانوں کے لیے قائم کیا گیا ہے اور مسلمانوں کو تعلیم یافتہ بنانا اس کی اولین ترجیح ہے۔ 1981 کے ترمیمی بل سے کچھ لوگ مطمئن تھے کہ یونیورسٹی کی اقلیتی حیثیت برقرار ہے اور کچھ لوگ نہیں جس پر بحس جاری رہی۔ 2005 میں اس وقت کی یونیورسٹی انتظامیہ کو ایسا لگا کہ ہمارا اقلیتی ادارہ ہے تو ہم 50 فیصد سیٹیں انٹرنل طلبہ کے لیے ہیں ریزرو کر سکتے ہیں۔ اس لئے انہوں نے میڈیکل کی پوسٹ گریجویشن (ایم ڈی اور ایم ایس) کی داخلے میں 50 فیصد انٹرنل کوٹا کر دیا جس کو الہ اباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا کہ اے ایم یو اقلیتی ادارا نہیں ہے اس لئے یہ 50 فیصد ریزرویشن نہیں کرسکتے۔

جسٹس ارون ٹنڈن نے 4 اکتوبر 2005 کو اے ایم یو کے 1981 کے ترمیمی بل کو نظر انداز کرتے ہوئے عزیز باشا والے کیس کو مانتے ہوئے فیصلہ سنایا تھا اسی فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے اب سپریم کورٹ میں سات ججو کی بینچ سماعت کر رہی ہے۔ سپریم کورٹ میں اے ایم یو کی جانب سے راجیو دھون ایڈوکیٹ ہیں اور اے ایم یو المنائی ایسوں سیشن کی جانب سے کپل سبل اے ایم یو کے اقلیتی حثیت کا کیس لڑ رہے ہیں جس کی سماعت 9 جنوری سے جاری ہے۔

اے ایم یو اور اس کے اقلیتی درجہ کا معاملہ

علیگڑھ: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو)، شعبہ تاریخ کے پروفیسر محمد سجاد نے ای ٹی بی بھارت سے خصوصی گفتگو میں بتایا محمڈن اینگلو اورینٹ (ایم اے او) کالج جو 1920 میں پارلیمانی ایکٹ کے تحت علی مسلم یونیورسٹی بنا کو ہی مسلم یونیورسٹی کا درجہ ملا کیونکہ اس وقت برطانوی حکومت سمیت مسلم اور تعاون کرنے والے غیر مسلم بھی جانتے تھے کہ اس ادارے کی بنیاد سر سید نے مسلمانوں کے لیے رکھی تھی اس کو مسلمانوں کی جدید تعلیم کی ترقی کے لیے قائم کیا گیا تھا۔

عالمی شہرت یافتہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے اقلیتی کردار کو برقرار رکھنے کی سماعت گزشتہ تین روز سے سپریم کورٹ میں چل رہی ہے۔ اے ایم یو شعبہ تاریخ کے پروفیسر محمد سجاد نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو میں اے ایم یو کے اقلیتی درجہ سے متعلق بتایا محمڈن اینگلو اورینٹ (ایم اے او) کی بنیاد 1877 میں رکھی گئی جو کو 1920 میں پارلیمانی ایکٹ کے تحت یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہوا اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے نام سے جانا گیا، تو 1877 سے 1898 تک یہ بات واضح تھی کہ مسلمانوں کی جدید تعلیم کی پسماندگی کو دور کرنے کے لئے یہ ادارہ قائم کیا جا رہا ہے۔

جس کے قیام میں مسلمانوں کے ساتھ برطانوی حکومت نے بھی تعاون کیا اور غیر مسلم نے بھی تعاون اس لئے ہی کیا تھا کہ مسلمان جدید تعلیم کے میدان میں بھی آگے آئے، یعنی غیر مسلم بھی تعاون مسلم کی تعلیمی ترکی کے لئے دے رہے تھے۔ پروفیسر سجاد نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اسی برطانوی حکومت (1917-22) کے دور میں ملک میں دیگر یونیورسٹیاں بھی قائم کی گئی لکھنو یونیورسٹی، پٹنہ یونیورسٹی اور ڈھاکا یونیورسٹی ان یونیورسٹی میں سے کسی بھی یونیورسٹی کو مسلم یونیورسٹی کا درجہ نہیں دیا گیا جبکہ لکھنؤ یونیورسٹی کی تعمیر میں راجہ محمود آباد زیادہ وقت دے رہے تھے جبکی اس وقت وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے لیکن وہ زیادہ تر وقت لکھنؤ میں گزارتے تھے۔

ایم اے او کالج جو بعد میں علی مسلم یونیورسٹی بنا کو ہی مسلم یونیورسٹی کا درجہ ملا کیونکہ اس وقت برطانوی حکومت سمیت مسلم اور غیر مسلم بھی جانتے تھے کہ اس ادارے کی بنیاد سر سید نے مسلمانوں کے لیے رکھی تھی اور اس کو مسلمانوں کی جدید تعلیم کی ترقی کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ 1951 میں اے ایم یو ایکٹ ترمیمی بل پیش کیا گیا جس میں اے ایم یو کی اعلی گورننگ باڈی اے ایم یو کورٹ کے رکنیت غیر مسلمانوں کے لیے بھی کی کردی گئی، جو پہلے صرف مسلمانوں کے لیے ہی تھی۔ 1967 میں عزیز باشا مقدمہ میں یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو یہ کہہ کر ختم کر دیا گیا کہ اس ادارے کا قیام تو مسلمانوں نے کیا تھا لیکن اس کا انتظام مسلم کے ساتھ غیر مسلم بھی کرتے ہیں اس لیے اس ادارے کا اقلیتی حثیت ختم کردی گئ۔

1981 میں پارلیمنٹ میں ایک ترمیمی بل پاس کیا گیا جس میں کہا گیا کہ اے ایم یو کو مسلمانوں نے مسلمانوں کے لیے قائم کیا گیا ہے اور مسلمانوں کو تعلیم یافتہ بنانا اس کی اولین ترجیح ہے۔ 1981 کے ترمیمی بل سے کچھ لوگ مطمئن تھے کہ یونیورسٹی کی اقلیتی حیثیت برقرار ہے اور کچھ لوگ نہیں جس پر بحس جاری رہی۔ 2005 میں اس وقت کی یونیورسٹی انتظامیہ کو ایسا لگا کہ ہمارا اقلیتی ادارہ ہے تو ہم 50 فیصد سیٹیں انٹرنل طلبہ کے لیے ہیں ریزرو کر سکتے ہیں۔ اس لئے انہوں نے میڈیکل کی پوسٹ گریجویشن (ایم ڈی اور ایم ایس) کی داخلے میں 50 فیصد انٹرنل کوٹا کر دیا جس کو الہ اباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا کہ اے ایم یو اقلیتی ادارا نہیں ہے اس لئے یہ 50 فیصد ریزرویشن نہیں کرسکتے۔

جسٹس ارون ٹنڈن نے 4 اکتوبر 2005 کو اے ایم یو کے 1981 کے ترمیمی بل کو نظر انداز کرتے ہوئے عزیز باشا والے کیس کو مانتے ہوئے فیصلہ سنایا تھا اسی فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے اب سپریم کورٹ میں سات ججو کی بینچ سماعت کر رہی ہے۔ سپریم کورٹ میں اے ایم یو کی جانب سے راجیو دھون ایڈوکیٹ ہیں اور اے ایم یو المنائی ایسوں سیشن کی جانب سے کپل سبل اے ایم یو کے اقلیتی حثیت کا کیس لڑ رہے ہیں جس کی سماعت 9 جنوری سے جاری ہے۔

Last Updated : Jan 12, 2024, 10:40 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.