لکھنو: عام انتخابات قریب اتے ہی ای وی ایم مشین پر سوال اٹھنا شروع ہو جاتے ہیں یہ پہلی بار نہیں ہے جب دہلی سمیت کئی ریاستوں میں ای وی ایم کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں بلکہ اس سے قبل بھی ای وی ایم کے خلاف مظاہرے ہوئے اور عوام کا اعتماد ای وی ایم سے اس وقت اٹھا جب کئی انتخابات میں ووٹوں سے کی گنتی سے قبل ہی سٹرانگ روم کے باہر یا سڑکوں پر گاڑیوں میں ای وی ایم مشین ملیں۔ ای ٹی وی بھارت نے ای وی ایم پر عوام کا اعتماد کیسے بحال ہو اور کیا ای وی ایم پر مستقل پابندی عائد ہو سکتی ہے ان تمام سوالوں کا جواب تلاش کرنے کے لیے اترپردیش کے سابق اطلاعاتی کمشنر سید حیدر عباس رضوی سے خاص بات چیت کیا ہے۔
رضوی نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ 2014 کے بعد سے ہی ای وی ایم پر سوالات اٹھنے شروع ہو گئے تھے اس پر ہم نے کئی اہم مضامین بھی لکھے ہیں ای وی ایم کا بھارت میں مستقل طور پر پابندی عائد ہونا ناممکن ہے تاہم اس میں کئی اصلاحات کی جا سکتی ہیں۔ جس سے عوام کا اعتماد بحال ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ای وی ایم اور وی وی پیٹ کی پرچی کو 100 فیصد ملانے سے منع کیا ہے لیکن اگر ایسا ہوتا تو عوام کا اعتماد ای وی ایم پر مضبوط ہوتا انہوں نے مزید کہا کہ جس طریقے سے ہم کسی کو قرض دیتے ہیں تو ایک رسید حاصل کرتے ہیں اسی طریقے سے اگر ہم ووٹ ڈالتے ہیں تو ایک رسید ملنا چاہیے تاکہ یہ تصدیق ہو سکے کہ ہم نے جس پارٹی کو ووٹ دیا ہے اسی پارٹی یا امیدوار کو ووٹ ملا ہے یا نہیں۔
ای وی ایم کے ہیک ہونے پر انہوں نے زمبابوے کے الیکشن کا کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ زمبابوے میں الیکشن ہوا تھا اور بڑے پیمانے پر مشین کو ہیک کر لیا گیا تھا تو عین ممکن ہے کہ ای وی ایم ہیک ہو سکتا ہے انہوں نے مزید کہا کہ جب ہم زمین پہ رہ کر چند ریان تھری کا لینڈنگ کر سکتے ہیں تو عین ممکن ہے کہ ای وی ایم بھی ہیک ہو سکتا ہے انہوں نے کئی بیرون ممالک کی بھی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ امریکہ، چین اور جرمنی جیسے ممالک جو سیکولرزم اور جمہوری نظام کے حامی ہیں لیکن وہاں ای وی ایم مشین کے بجائے بیلٹ پیپر سے انتخابات ہوتے ہیں جس پر نہ صرف عوام کا اعتماد پختہ ہے بلکہ جمہوری نظام بھی بہتر طریقے سے چل رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ای وی ایم سے انتخابات کرانے کا ایک ہی فائدہ نظر اتا ہے اور وہ یہ فائدہ ہے کہ وقت کم لگتا ہے لیکن جب ہم پانچ برس کے انتظار کے بعد کسی امیدوار کا انتخاب کرتے ہیں تو ہم کیا ایک دن دو دن کا انتظار نہیں کر سکتے الیکشن کمیشن کو اس پہ غور کرنا چاہیے اور بیلٹ پیپر سے انتخابات کرانا چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی اواز کمزور پڑتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ای وی ایم پر پابندی عائد کرنا ناممکن لگتا ہے۔ انہوں نے فیفا ورلڈ کپ کا بھی حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عالمی سطح پر ایک کھیل ہو رہا تھا اور اس کھیل میں ایک ٹیم ایسی تھی جس کا صاف کہنا تھا کہ ہم انگلینڈ کے ایمپائرز کو نہیں رکھیں گے اور ان کے مطالبات کو تسلیم کیا گیا تھا۔
رضوی نے کہا کہ اگر بھارت کی تمام حزب اختلاف کی سیاسی جماعت ایک اواز ہو کر کے ای وی ایم کے خلاف اتحاد کا مظاہرہ کریں تو عین ممکن ہے کہ اس پر بھی پابندی عائد ہو سکتی ہے اور بیلٹ پیپر سے انتخابات ہوگا لیکن ایسا کیوں نہیں ہو رہا ہے یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ برسر اقتدار سیاسی جماعت ای وی ایم کی حمایت کیوں کرتی ہے اور ای وی ایم سے اس کو کیا فائدہ حاصل ہو رہا ہے اس کو بھی سمجھنا دلچسپ ہوگا۔