ایس پی ۔ بی ایس پی اتحاد کے بعد جہاں سارے اعدادوشمار بی جے پی کے خلاف جا رہے تھے لیکن بوتھ سطح پر بی جے پی کی مناسب حکمت عملی اور اس کے کارکنوں نے مرکزی و ریاستی حکومتوں کی جانب سے چلائی جارہی فلاحی اسکیموں کو لوگوں تک پہنچا کر ماحول کو پارٹی کے حق میں ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
بی جے پی کے اس بڑی جیت کی وجوہات کے بارے میں پوچھے جانے پر بی جے پی کے ایک سینیئر رہنما نے کہا کہ 'اس الیکشن میں بی جے پی نے ذات فیکٹر کو شکست دیتے ہوئے مخصوص ذاتوں کی نمائندگی کرنے والی ایس پی ۔ بی ایس پی کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ تاہم پارٹی اس چیلینج کو بوتھ سطح پر بہتر مینیجمنٹ کی بنیاد پر ہی ٹکر دے سکی۔'
جنوری کے ابتداء میں جب مایاوتی اور اکھلیش نے اتحاد کا اعلان کیا جس میں بعد میں آر ایل ڈی بھی شامل ہو گئی، اس وقت سے سیاسی مبصرین نے لکھنا شروع کر دیا تھا کہ اتحاد بی جے پی کے لیے کافی پریشان کن ہے کیونکہ ذات پات کے فیکٹر اس کے خلاف تھے۔ ان کےمطابق جب یادو، مسلم، دلت اور جاٹ کے ووٹ بینک کو شمار کیا جاتا تھا تو یہ اس ووٹ شیئرز سے زیادہ تھا، جتنا بی جے پی نے 2014 کے انتخابات میں حاصل کیا تھا۔
بی جے پی نے اس اتحاد پر باریکی سے غور کیا اور اس کے بعد میرا بوتھ سب سے مضبوط مہم کا آغاز کیا جس کے تحت بوتھ کو مضبوط کرنے کی مہم چلائی گئی۔
اس دوران بوتھ کے صدر اور ووٹر لسٹ انچارج کو نامزد کیا گیا اور پارٹی قیادت مسلسل ان سے رابطے میں رہی۔