انسان کے ساتھ صحت اور بیماری تا زندگی لگی رہتی ہے، یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی انسان بیمار نہ پڑے، جو انسان بیمار پڑ جاتا ہے، اسے علاج کے ذریعے ٹھیک کیا جاتا ہے۔
بیمار افراد میں کچھ ایسے افراد بھی ہوتے ہیں جنہیں خون کی بھی ضررت ہوتی ہے، اسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے صحت مند افراد خون کا عطیہ دیتے ہیں۔
خون کا عطیہ دینے سے کسی کی زندگی بچ جاتی ہے، ایک زندگی جو ختم ہونے والی رہتی ہے، دوبارہ جی اُٹھتی ہے اور چلنے پھرنے لگتی ہے۔
بھارت میں ہر روز سینکڑوں سڑک حادثات پیش آتے ہیں۔ ان میں بیشتر افراد کی موت ہوجاتی ہے کیوں کہ انہیں بروقت خون نہیں مل پاتا ہے۔
اس کیمپ میں دارالعلوم ندوۃ العلما لکھنؤ کے طلبہ نے کثیر تعداد میں شرکت کی اور بلڈ بینک کے لیے خون کا عطیہ پیش کیا اور ضرورت مندوں کی جان بچانے کا عزم کیا۔
بلڈ بینک میں خون ایک ماہ تک استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اس موقع پر بلرام پور ہسپتال کے ڈاکٹر راجیو لوچن نے کہا کہ خون کا عطیہ دینے سے جسم میں کمزوری نہیں آتی اور نہ ہی خون دینے والا بیمار ہوتا ہے، بلکہ یہ فائدہ ہوتا ہے کہ آپ کے جسم میں تازہ خون بنتا ہے اور کئی بیماریوں سے آپ محفوظ رہتے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ کی ہم لوگ ایک ڈونیٹر سے محض 200 ایم ایل ہی خون لیتے ہیں، جو تین چار روز کے بعد اس کے جسم میں دوبارہ بن جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ قدرت نے ہمارے جسم میں ایک اسپیلین دیا ہے، جس میں ہر وقت تقریباً آدھا لیٹر خون ہوتا ہے لہذا خون دینے سے کسی طرح کی کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔
بس یہ دیکھنا چاہیے کہ کوئی بھی تین مہینے کے اندر خون دوبارہ نہ دے ورنہ اس شخص کو نقصان ہو سکتا ہے۔
جب کہ اس موقع پر مولانا محمد حسن ندوی نے کہا کہ انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے خون کا عطیہ پیش کرنا چاہیے ، یہ انسانیت کے لیے بے حد ضروری ہے۔
آل انڈیا پیام انسانیت فورم دارالعلوم ندوۃ العلما کا ذیلی ادارہ ہے، جو ہر برس اس طرح پروگرام انعقاد کرتا ہے۔