سیشن کورٹ کے جج دھرمیش سنگھ نے سینگر کو قصورواور ٹھہراتے ہوئے کہا کہ اس معاملے میں سزا کے لیے عدالت میں بحث 19دسمبر کو ہوگی۔
حالانکہ سینگر کے وکیل سزا کے لیے آج ہی بحث چاہتے تھے۔عدالت نے اس معاملے میں ایک دیگر ملزم خاتون ششی سنگھ کو شبہ کا فائدہ دیتے ہوئے بری کردیا۔
واضح رہے کہ ششی سنگھ پر متاثرہ کو بہلا پھسلا کر رکن اسمبلی کے گھر لے جانے کا الزام تھا۔
سینگر اترپردیش میں اناو ضلع کے بانگرمئو اسمبلی حلقہ میں بی جےپی کے ٹکٹ پر فتح حاصل کی تھی، ان کے خلاف جنسی زیادتی اور اغوا کے مقدمات کی سماعت یہاں کی تیس ہزاری عدالت میں چل رہی تھی۔اس کے علاوہ سینگر پر مرکزی تفتیشی بیورو (سی بی آئی) کی خصوصی عدالت میں تین معاملے چل رہے ہیں۔
یہ کیس سنہ 2017 کا ہے جس میں سینگر کے خلاف متاثرہ کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے کا معاملہ درج کیا گیا تھا۔سی بی آئی کو یہ کیس سنہ 2018میں منتقل کیا گیا تھا۔
تیس ہزاری عدالت میں پانچ اگست کو اس معاملےکی سماعت شوع ہوئی تھی، دونوں ملزمین کے خلاف نو اگست کو الزام طے کیے گئے تھے۔اس معاملے میں چار ماہ سے زیادہ سماعت چلی، عدالت نے عصمت دری کی متاثرہ کو نابالغ مانا ہے۔
سینگر پر الزام تھ اکہ نوکری دینے کا وعدہ کرکے انھوں نے اپنی رہائش گاہ پر متاثرہ کے ساتھ جنسی زیادتی کی اور متاثرہ کا اغوا کر کے اس کے ساتھ اجتماعی آبروریزی بھی کی گئی۔
عدالت کے فیصلہ سنانے کے بعد وہاں موجود سینگر رونے لگے جبکہ دوسری ملزم ششی سنگھ فیصلے کے بعد بے ہوش ہوگئی۔
متاثرہ اور اس کی ماں کے یوگی آدتیہ ناتھ کی لکھنؤ واقع رہائش گاہ کے باہر خودکشی کرنے کی کوشش کے بعد اس معاملے نے طول پکڑ لیا۔اس کے بعد سپریم کورٹ کے حکم سے اناو معاملے کی جانچ لکھنؤ سے دہلی منتقل کی گئی تھی۔
لوٹ مار کی مزاحمت کرنے پر تاجر گولی کا شکار
کلدیپ سنگھ سینگر کو ریپ(376) اور پوسکو ایکٹ میں مجرم قرار دیا گیا ہے اور ان پر درج دیگر تین مقدمات میں دہلی کی خصوصی سی بی آئی عدالت میں ٹرائل چل رہا ہے۔
کورٹ کا کہنا ہے کہ 'واردات کے وقت متاثرہ نابالغ تھی اس کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی، متاثرہ ڈری ہوئی تھی اور اس کے اہلخانہ کو جان کا خطرہ تھا وہ ایک طاقتور شخص سے لڑرہی تھی اور متاثرہ کے اہلخانہ پر فرضی کیس درج کیے گئے'۔
سی بی آئی نے اجتماعی جنسی زیادتی کیس میں چارج شیٹ داخل کرنے میں ایک سال سے زیادہ کا عرصہ لگادیا اور جج نے سی بی آئی کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھائے ہیں کہ سی بی آئی نے متاثرہ کا بیان درج کرنے کے لیے اسے اپنے پاس بلایا جب کہ سی بی آئی کو خود متاثرہ کے پاس جانا چاہیے تھا۔