ETV Bharat / state

Bad Condition of Bhikampur Gate: اے ایم یو کا تاریخی بھیکم پور گیٹ، بدحالی کا شکار

گیٹ کی بدحالی کو دیکھ کر یونیورسٹی کے طلبہ اور طلبہ رہنماؤں University Students Leader نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ جلد سے جلد اس پورے گیٹ کی اچھی طریقے سے صفائی کی جائے The gate should be thoroughly cleaned اور اس کے چاروں طرف لوہے یا پتھر کی ریلنگ بھی لگائی جائے تاکہ سبزی اور پھل والے اور دیگر لوگ یہاں پر گندگی نہ کر سکیں۔

اے ایم یو کا بھیکم پور گیٹ، بدحالی کا شکار
اے ایم یو کا بھیکم پور گیٹ، بدحالی کا شکار
author img

By

Published : Dec 22, 2021, 6:52 PM IST

Updated : Dec 22, 2021, 7:06 PM IST

علیگڑھ مسلم یونیورسٹی Aligarh Muslim University کو لوگ صرف ایک تعلمی ادارہ سمجھتے ہیں لیکن اے ایم یو میں بہت ساری تاریخ اور تہذیب محفوظ ہے۔ اے ایم یو ملک کا واحد تعلیمی ادارہ ہے جہاں پر سب سے زیادہ تاریخی عمارتیں موجود ہیں، جن میں اٹھارویں صدی کا بھیکم پور گیٹ Bhikampur Gate of the eighteenth century بھی شامل ہے جو مغلیہ دور اقتدار کا تعمیر کردہ آگرہ کے قلعے میں نصب تھا۔ جب 1833 میں برطانوی حکام نے قلعے کے قیمتی سامان کو نیلام کیا تو حاجی داؤد خان نے اسے خرید کر 1835 میں اپنی ریاست بھیکم پور میں نصب کردیا۔

اے ایم یو کا بھیکم پور گیٹ، بدحالی کا شکار

عبدالصبور خان شروانی نے 1961 میں یہ اے ایم یو کی نذر کردیا جو 1963 میں موجودہ جگہ یونیورسٹی فیض گیٹ کے قریب نصب کیا گیا۔اٹھارویں صدی کا تاریخی بھیکم پور گیٹ آج بدحالی کا شکار The historic Bhikampur Gate is in a state of disrepair today.ہے۔ جس کے آس پاس کوڑا کرکٹ پڑا رہتا ہے، کافی وقت سے صفائی نہ ہونے کی سبب گیٹ کے اوپر بھی پیڑ پودے اگ گئے ہیں۔ اس کی حالت اتنی بری ہوگئی ہے کہ اب تو لوگ بھی اکثر یہاں پر کھڑے ہو کر پیشاب کرتے نظر آتے ہیں۔

انتظامیہ کے ناک کے نیچے موجود تاریخی گیٹ کی حالت ایسی ہو گئی ہے کہ اس کے پاس تو دور سامنے بھی لوگ کھڑا ہونا پسند نہیں کرتے۔

گیٹ کی بدحالی کو دیکھ کر یونیورسٹی کے طلبہ اور طلبہ رہنماؤں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ جلد سے جلد اس پورے گیٹ کی اچھے طریقے سے صفائی کی جائے اور اس کے چاروں طرف لوہے یا پتھر کی ریلنگ بھی لگائی جائے تاکہ سبزی اور پھل والے اور دیگر لوگ یہاں پر گندگی نہ کر سکیں اور جو لوگ یہاں پر کھڑے ہو کر اکثر پیشاب کرتے نظر آتے ہیں ان کو بھی روکا جا سکے۔

طلبہ اور طلبہ رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اگر یونیورسٹی انتظامیہ ان تاریخی عمارات کو محفوظ نہیں کریں گی تو جلد یونیورسٹی میں موجود تاریخی عمارت ختم ہو جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں:AMU Students on Haryana Mob Lynching: ہریانہ موب لنچنگ کے خلاف اے ایم یو طلبہ کا احتجاج

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سینئر الومنائی محمد شمس الدین شمس، 1980 میں قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے چالیس سال بعد جب سعودی سے اپنے تعلیمی ادارے واپس آئے تو تاریخی بھیکم پور گیٹ پر لوگوں کو کھڑا ہو کر پیشاب کرتے دیکھ دنگ رہ گئے اور جب گیٹ کو دیکھا تو اس کی بدحالی کو دیکھ کر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے یونیورسٹی وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور سے درخواست کی کہ وہ جلد سے جلد اس تاریخی گیٹ کی صفائی کی کروائیں۔تاکہ تاریخ کو محفوظ رکھا جائے۔

شمس الدین شمس نے مزید کہا گیٹ کی بدحالی کو دیکھ کر بڑا افسوس ہوا کہ یہاں پر لوگ کھڑے ہو کر پیشاب کر رہے ہیں۔ ہم لوگ کہتے ہیں کہ "یہ میرا چمن ہے، میں اپنے چمن کا بلبل ہوں" اس گیٹ کی بدحالی کو دیکھ کر کہاں ہے چمن اور کہاں ہیں بلبل۔

اٹھارویں صدی کے تاریخی گیٹ کی صفائی کرنے کے لیے یونیورسٹی میں بلڈنگ ڈیپارٹمنٹ اور لینڈ اینڈ گارڈن شعبہ موجود ہے، باوجود اس کے تاریخی گیٹ بدحالی کا شکار ہے۔

علیگڑھ مسلم یونیورسٹی Aligarh Muslim University کو لوگ صرف ایک تعلمی ادارہ سمجھتے ہیں لیکن اے ایم یو میں بہت ساری تاریخ اور تہذیب محفوظ ہے۔ اے ایم یو ملک کا واحد تعلیمی ادارہ ہے جہاں پر سب سے زیادہ تاریخی عمارتیں موجود ہیں، جن میں اٹھارویں صدی کا بھیکم پور گیٹ Bhikampur Gate of the eighteenth century بھی شامل ہے جو مغلیہ دور اقتدار کا تعمیر کردہ آگرہ کے قلعے میں نصب تھا۔ جب 1833 میں برطانوی حکام نے قلعے کے قیمتی سامان کو نیلام کیا تو حاجی داؤد خان نے اسے خرید کر 1835 میں اپنی ریاست بھیکم پور میں نصب کردیا۔

اے ایم یو کا بھیکم پور گیٹ، بدحالی کا شکار

عبدالصبور خان شروانی نے 1961 میں یہ اے ایم یو کی نذر کردیا جو 1963 میں موجودہ جگہ یونیورسٹی فیض گیٹ کے قریب نصب کیا گیا۔اٹھارویں صدی کا تاریخی بھیکم پور گیٹ آج بدحالی کا شکار The historic Bhikampur Gate is in a state of disrepair today.ہے۔ جس کے آس پاس کوڑا کرکٹ پڑا رہتا ہے، کافی وقت سے صفائی نہ ہونے کی سبب گیٹ کے اوپر بھی پیڑ پودے اگ گئے ہیں۔ اس کی حالت اتنی بری ہوگئی ہے کہ اب تو لوگ بھی اکثر یہاں پر کھڑے ہو کر پیشاب کرتے نظر آتے ہیں۔

انتظامیہ کے ناک کے نیچے موجود تاریخی گیٹ کی حالت ایسی ہو گئی ہے کہ اس کے پاس تو دور سامنے بھی لوگ کھڑا ہونا پسند نہیں کرتے۔

گیٹ کی بدحالی کو دیکھ کر یونیورسٹی کے طلبہ اور طلبہ رہنماؤں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ جلد سے جلد اس پورے گیٹ کی اچھے طریقے سے صفائی کی جائے اور اس کے چاروں طرف لوہے یا پتھر کی ریلنگ بھی لگائی جائے تاکہ سبزی اور پھل والے اور دیگر لوگ یہاں پر گندگی نہ کر سکیں اور جو لوگ یہاں پر کھڑے ہو کر اکثر پیشاب کرتے نظر آتے ہیں ان کو بھی روکا جا سکے۔

طلبہ اور طلبہ رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اگر یونیورسٹی انتظامیہ ان تاریخی عمارات کو محفوظ نہیں کریں گی تو جلد یونیورسٹی میں موجود تاریخی عمارت ختم ہو جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں:AMU Students on Haryana Mob Lynching: ہریانہ موب لنچنگ کے خلاف اے ایم یو طلبہ کا احتجاج

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سینئر الومنائی محمد شمس الدین شمس، 1980 میں قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے چالیس سال بعد جب سعودی سے اپنے تعلیمی ادارے واپس آئے تو تاریخی بھیکم پور گیٹ پر لوگوں کو کھڑا ہو کر پیشاب کرتے دیکھ دنگ رہ گئے اور جب گیٹ کو دیکھا تو اس کی بدحالی کو دیکھ کر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے یونیورسٹی وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور سے درخواست کی کہ وہ جلد سے جلد اس تاریخی گیٹ کی صفائی کی کروائیں۔تاکہ تاریخ کو محفوظ رکھا جائے۔

شمس الدین شمس نے مزید کہا گیٹ کی بدحالی کو دیکھ کر بڑا افسوس ہوا کہ یہاں پر لوگ کھڑے ہو کر پیشاب کر رہے ہیں۔ ہم لوگ کہتے ہیں کہ "یہ میرا چمن ہے، میں اپنے چمن کا بلبل ہوں" اس گیٹ کی بدحالی کو دیکھ کر کہاں ہے چمن اور کہاں ہیں بلبل۔

اٹھارویں صدی کے تاریخی گیٹ کی صفائی کرنے کے لیے یونیورسٹی میں بلڈنگ ڈیپارٹمنٹ اور لینڈ اینڈ گارڈن شعبہ موجود ہے، باوجود اس کے تاریخی گیٹ بدحالی کا شکار ہے۔

Last Updated : Dec 22, 2021, 7:06 PM IST

For All Latest Updates

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.