ان بھکاری کا خیال ہے کہ رمضان المبارک میں آمدنی زیادہ ہوتی ہے، لیکن مسلمان بھیکاریوں کو ہی عوام صدقہ دیتی ہے۔ ایسے میں ان ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والی بیشتر بھیکاری اب مسلمانوں کی شکل اختیارکرکے بھیک مانگتے ہیں۔
میرٹھ کے گھنٹہ گھر پر کچھ بھیکاریوں نے بات چیت میں کہا وہ مختلف ریاستوں میں بھیک مانگنے کی غرض سے جاتے ہیں جس میں مذہبی مقامات کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ ان لوگوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرتے ہوئے بتایا کہ رمضان میں بہت نئے بھیکاری ہوتے ہیں اور مذہب کے بنیاد پر بھیک مانگتے ہیں۔
وہیں مسلم کمیونٹی میں اس کے خلاف ناراضگی بھی پائی جارہی ہے۔ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ یہ مذہب کے بدنامی کا سبب ہے اگر یہ لوگ اپنے ہی مذہبی طور طریقے پر رہ کر بھیک مانگتے تو اسے کوئی حرج نہیں اور لوگ منع بھی نہیں کرتے ہیں۔
بھارت میں عوام کے سامنے بھیکاریوں کے دن بدن اہم مسئلے بنتے جا رہے ہیں ہر شہر گلی کوچہ چوراہے اور مذہبی مقامات پر دو چار بھیک مانگنے والے نظر آجاتے ہیں۔ اس مسئلے کے حل کے لیے قوانین بھی ہے 1973 ایکٹ کے تحت بھیک مانگنے والا سزا کا مستحق ہوگا اور سماجی انصاف کے تحت اسے ہنر مند بنا کر صحیح زندگی گزارنے پر مجبور کرنا ہے۔ لیکن پولیس انتظامیہ ان پر کاروائی کرنے سے کیوں ڈر رہی ہے یہ اہم سوال ہے۔