دس مارچ کو تحریک آزادی کے دو اہم مجاہد آزادی مولانا شوکت علی اور مولانا عبیداللہ سندھی کے یومِ ولادت کا دن ہے۔ اس سلسلہ میں آل انڈیا تنظیم علماء اسلام کے جنرل سیکرٹری اور اسلامک ویلفیئر ریسرچ سینٹر کے بانی مولانا شہاب الدین نے ہندوستان کی تحریک آزادی میں مسلمانوں کی حصہ داری پر ایک سیمینار منعقد کیا، جس میں خانقاہِ قادریہ کے سجادہ نشین پیر طریقت حضرت صوفی عبد الرحمٰن قادری نے سیمینار کی صدارت کی.
اس موقع پر مولانا شہاب الدین نے تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مولانا شوکت علی، بھارت کو آزاد کرانے کی تحریک کے بہت اہم مجاہد آزادی تھے۔ وہ خلافت تحریک کے اہم ممبر اور قومی لیڈر تھے۔ تحریک آزادی میں اپنی جان گنوانے والے لیڈران میں ایسے تمام نام ہیں، جنہیں اعلیٰ سطح پر فراموش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تاریخ سے اُن کے اہم تعاون کو مٹانے کا کام کیا جا رہا ہے لیکن تمام کوششوں کے باوجود مولانا شوکت علی اور اُن کے چھوٹے بھائی مولانا محمد علی جوہر کی قربانیوں کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
اس موقع پر پیر طریقت حضرت صوفی عبد الرحمٰن قادری نے کہا کہ ملک کی آزادی میں صرف کسی ایک خاص طبقہ کا تعاون نہیں ہے، بلکہ ہندو، مسلمان، سِکھ، عیسائی، جینی اور بودھ مذہب کے ہزاروں لوگوں نے اپنے خون سے آزادی کی عبارت لکھی ہے۔ برطانوی حکومت نے ہزاروں علماء کرام کو شہید کرکے درختوں پر لٹکا دیا تھا۔ ایسا کوئی درخت نہیں تھا، جس پر علماء دین کی لاش نہیں لٹکی تھی۔
ایسی عظیم قربانی دینے والے علماء کرام کی جانب سے قوم کے لیے اہم تعاون کو تاریخ کے صفحات سے مٹانے کی ناپاک کوشش کی جارہی ہے۔ ایسے پرآشوب حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم تحریک آزادی میں قربان ہونے والے تمام شہیدوں کی یاد میں اسی طرح سیمینار منعقد کرتے رہیں اور نوجوان طبقہ کو بیدار کریں، جس سے نوجوانوں کو بھی جنگِ آزادی میں مسلمانوں کی قربانیوں سے واقفیت حاصل ہو۔
اس موقع پر مولانا شہاب الدین نے کہا کہ ملک کے حالات ایسی راہ پر گامزن ہیں، جہاں وجود کو بچائے رکھنے کے لیے ہر طبقہ جدوجہد کر رہا ہے. غور طلب ہے کہ سنہ 1857ء میں جب میرٹھ سے برطانوی حکومت کے خلاف آزادی کی تحریک کا نعرہ بلند ہوا تو بریلی کے مجاہد آزادی نواب خان بہادر خان نے سر زمینِ بریلی سے برطانوی حکومت کو شکست دی اور گیارہ مہینے تک بریلی کو برطانوی حکومت سے بچاتے ہوئے آزاد رکھا۔