اترپردیش کے بریلی میں نواب گنج میونسپل کونسل کی چیئر پرسن شہلا طاہر کی مشکلات کم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔ اُن کے پسماندہ ذات کے سرٹیفکیٹ سے متعلق شکایت کی تحقیقات کے بعد ڈی ایم نتیش کمار نے ان کی پسماندہ ذات کا سرٹیفکیٹ منسوخ کردیا ہے۔ اس حوالے سے نوٹس تحصیل دار نواب گنج نے ان کے گھر پر چسپاں کیا ہے۔ ساتھ ہی، ڈی ایم نے الیکشن کمیشن کو بھی الیکشن منسوخ کرنے کی سفارش کی ہے۔
نواب گنج کی میونسپل کونسل صدر کا عہدہ پسماندہ ذات کے لیے مخصوص تھا۔ چیئرپرسن شہلا طاہر نے خود کو پسماندہ ذات ”مومن انصار“ کا حلف نامہ داخل کرکے میونسپل کونسل کے انتخابات میں امیدوار کے طور پر نامزدگی داخل کرکے انتخاب جیتا تھا۔ ان کے حریف بی جے پی لیڈر اور سابق ضلع صدر رویندر سنگھ راٹھور کے بھائی نریندر سنگھ راٹھور نے پسماندہ طبقات کمیشن سے شکایت کی تھی کہ شہلا طاہر عام ذات کی امیدوار تھیں اور اُنہوں نے یہ حقائق چھپاکر الیکشن لڑا ہے۔
پسماندہ طبقات کمیشن نے بریلی کے ضلع انتظامی افسران سے کہا کہ وہ ذات کے سرٹیفکیٹ کی تحقیقات کرنے کے لیے ایک جانچ کمیٹی تشکیل دیں۔ الزامات تھے کہ چیئرمین شہلا طاہر کا تعلق جنرل کیٹیگری سے ہے، جب کہ ان کے شوہر ڈاکٹر محمد طاہر کا تعلق پسماندہ ذات سے ہے۔ بی جے پی لیڈر کی شکایت کے بعد بریلی سے لیکر آگرہ تک کے ضلع مجسٹریٹ نے شہلا کے پسماندہ ذات ہونے کی جانچ کرائی، لیکن اُن کے پسماندہ ذات کے ہونے سے متعلق تصدیق نہیں ہوسکی۔
ایسا نہیں ہے کہ ضلع انتظامیہ نے شہلا طاہر کی ”ذات کی سند“ کو منسوخ کیا ہے۔ بلکہ ضلع انتظامیہ کی تشکیل شدہ پانچ رکنی کمیٹی کے سامنے کئ مرتبہ طلب کیے جانے کے باوجود شہلا طاہر پیش نہیں ہوئیں۔ شلا طاہر کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کے لیے بار بار مزید وقت لیتی رہیں۔
اُنہوں نے کمیٹی کے سامنے اپنی ذات سے متعلق دستاویز بھی پیش نہیں کیے۔ اس کے بعد کمیٹی نے اپنی رپورٹ ضلع مجسٹریٹ کے سپرد کردی۔ ضلع مجسٹریٹ نتیش کمار نے رپورٹ موصول ہونے کے بعد سنہ 2017ء میں نواب گنج میونسپل کونسل سے جاری ہوئے اُن کے پسماندہ ذات کے سرٹیفکیٹ کو منسوخ کردیا ہے۔
مزید پڑھیں: دارالعلوم دیوبند میں قدیم طلبہ کے داخلے کی کارروائی شروع
بہرحال قانونی عمل کے مطابق شہلا طاہر، ضلع مجسٹریٹ کے اس فیصلے کے خلاف آنے والے تیس دن میں اپیل کرسکتی ہیں۔ اُن کے گھر کے باہر جو اطلاع نوٹس کی شکل میں چسپاں کی گئی ہے، وہی اطلاع ہی سرکاری اطلاع کے طور پر تسلیم کی جاتی ہے۔
اب دیکھنا ہے کہ شہلا طاہر آئندہ تیس دن میں سرکاری دفتر کے کُھلنے کے دنوں میں حاضر ہوکر اپنے دستاویز پیش کرتی ہے یا جواب داخل کرتی ہیں۔