سی پی آئی کے ریاستی کاؤنسل کے رکن رندھیر سنگھ سمن نے دعویٰ کیا تھا کہ ایک ٹرینی آئی اے ایس افسر کو سی آر پی سی کی دفعہ 133 کی کارروائی کرنے کا حق نہیں ہے۔ اس کے لیے انہوں نے 30 مئی کو مرکزی حکومت کے محکمے انتظامیہ میں درخواست دی تھی اس کے بعد اس کی تحقیقات کے لیے آئی اے ایس افسر نیلا موہنن کو منتخب کیا گیا ہے۔
رندھیر سنگھ سمن نے بارہ بنکی کے گاندھی بھون میں پریس کانفرنس میں اس کی اطلاع دی۔ ان کا کہنا ہے ایک جوائنٹ مجسٹریٹ کے عہدے پر تعینات ٹرینی آئی اے ایس افسر کو سی آر پی سی کی دفعہ 133 کی کارروائی کا حق نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ٹرینی آئی اے ایس دیویانشو پٹیل نے حکومت کو خوش کرنے کے لیے یہ کارروائی کی ہے تاکہ اچھا عہدہ حاصل کیا جا سکے۔
انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ٹرینی آئی اے ایس جوائنٹ مجسٹریٹ رہتے ایس ڈی ایم نہیں ہوتا۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ جب مسجد وقف میں درج تھی تو اس کا مقدمہ ٹربیونل میں ہونا چاہیے تھا۔
رندھیر سنگھ کا مطالبہ ہے کہ ٹرینی آئی اے ایس افسر دیویانشو پٹیل کو برخاست کرنا چاہئے کیونکہ انہوں نے قانون کے مطابق کام نہیں کیا ہے۔
واضح رہے کہ ضلع بارہ بنکی کی تحصیل رام سنیہی گھاٹ کے احاطے میں واقع قدیم "مسجد خواجہ غریب نواز" جس کو "تحصیل والی مسجد" بھی کہتے ہیں، اسے انتظامیہ نے 17 مئی 2021 کی دیر رات منہدم کر دیا پھر اس کے ملبہ کو مختلف دریاؤں میں بہا دیا۔ یہ مسجد سو برس پرانی بتائی جاتی ہے۔ سنی سینٹرل وقف بورڈ سمیت یہ مسجد تحصیل کے دستاویز میں بھی درج ہے۔ اس مسجد میں برسہا برس سے نماز بھی ہوتی آ رہی ہے۔
آباد ہائی کورٹ نے مسماری پر حکم التوا جاری کیا تھا
ثبوت اور دستاویز کے باوجود انتظامیہ کو یہ مسجد غیر قانونی ہی محسوس ہوتی رہی۔ ان تمام باتوں سے الگ انتظامیہ نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسجد کو اس وقت مسمار کردیا، جب الہٰ آباد ہائی کورٹ نے مسمار کرنے کی تمام کارروائی کو 31 مئی تک ملتوی کرنے کا حکم دے رکھا تھا. اس طرح انتظامیہ کی تمام کارروائی شک و شبہات سے بالاتر نہیں ہے. انتظامیہ اپنے آپ کو صحیح ثابت کرنے لیے اپنی کارروائی کا دائرہ مسلسل بڑھاتا جا رہا ہے.
- حکومت نے اقلیتی بہبود اور وقف محکمے کی سہ رکنی ٹیم تشکیل دی
بتایا جارہا ہے کہ اس معاملے میں مسجد کمیٹی کے چھ اراکین اور وقف انسپیکٹر کے خلاف مسجد کو سنی سینٹرل بورڈ میں جعلسازی سے متعلق کیس درج کیا گیا ہے. ساتھ ہی ضلع مجسٹریٹ کی شکایت پر حکومت نے اقلیتی بہبود اور وقف محکمے کی سہ رکنی ٹیم تشکیل کی ہے جو اس کی تحقیقات کرے گی۔ دوسری جانب اس معاملے پر سیاست بھی گرم ہے. حزب اختلاف کی تمام پارٹیاں حکومت پر شدید نکتہ چینی کر رہی ہیں تو دوسری جانب علاقائی رکن پارلیمان اوپیندر راوت نے وزیراعلیٰ کو خط لکھ کر وقف میں جعلی طریقے سے درج کرائی گئی تمام مسجدوں کی جانچ کرانے کا مطالبہ کیا ہے.