ETV Bharat / state

بارہ بنکی: خواجہ غریب نواز مسجد کی جگہ پر پارک کا سنگ بنیاد - مسجد انتظامیہ نے وزیراعلیٰ کو خط لکھ کر انصاف کا مطالبہ بھی کیا

ریاست اترپردیش کے بارہ بنکی ضلع کی تحصیل رام سنیہی گھاٹ کے احاطے میں واقع مسجد غریب نواز کی جگہ پر پارک کی تعمیر کے لیے سنگِ بنیاد رکھ دیا گیا ہے۔ اس پارک کو سواتنترتا سنگرام اسمارک بال ادیان کا نام دیا گیا ہے۔ جمعرات کو متعلقہ اسمبلی حلقے کے رکن ستیش کمار شرما نے اس کا باقاعدہ افتتاح بھی کر دیا ہے۔

بارہ بنکی : خواجہ غریب نواز مسجد کی جگہ پر پارک تعمیر
بارہ بنکی : خواجہ غریب نواز مسجد کی جگہ پر پارک تعمیر
author img

By

Published : Jun 4, 2021, 11:00 AM IST

Updated : Jun 4, 2021, 11:16 AM IST

مسجد غریب نواز کو رام سنیہی گھاٹ تحصیل انتظامیہ نے گزشتہ ماہ مسمار کر دیا تھا اور راتوں رات مسجد کا ملبہ ہٹوا کر اس جگہ کو میدان میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ انتظامیہ کی اس کارروائی کے خلاف تمام علماء اور حزب اختلاف کی پارٹیوں نے احتجاج بھی کیا تھا۔ جمعرات کو مسجد کی جگہ پر پارک کی تعمیر کے لیے اور پارکنگ کے لیے ٹین شیڈ کا علاقائی رکن اسمبلی ستیش شرما نے سنگِ بنیاد رکھتے ہوئے عوام کے نام معنون کر دیا۔

جمعرات کو متعلقہ اسمبلی حلقے کے رکن ستیش کمار شرما نے اس کا باقاعدہ افتتاح کیا
جمعرات کو متعلقہ اسمبلی حلقے کے رکن ستیش کمار شرما نے اس کا باقاعدہ افتتاح کیا
  • مسجد کی جگہ بنے گا "سواتنترتا سنگرام اسمارک بال ادیان"

خبر کے مطابق پارک کے جس پتھر کا فیتہ کاٹ کر افتتاح کیا گیا ہے، اس پر لکھا گیا ہے کہ "سواتنترتا سنگرام اسمارک بال ادیان" جو کہ تحصیل کالونی میں رہنے والے ملازمین کے لئے تعمیر کیا گیا ہے۔ پارک کے سنگِ بنیاد کے وقت سی ڈی او ایکتا سنگھ سمیت تحصیل کے تمام اعلیٰ افسران بھی موجود تھے۔

مسجد کی جگہ بنے گا
مسجد کی جگہ بنے گا "سواتنترتا سنگرام اسمارک بال ادیان"

واضح رہے کہ ضلع بارہ بنکی کی تحصیل رام سنیہی گھاٹ کے احاطے میں واقع قدیم "مسجد خواجہ غریب نواز" جس کو "تحصیل والی مسجد" بھی کہتے ہیں، اسے انتظامیہ نے دوشنبہ 17 مئی 2021 کی دیر رات منہدم کر دیا پھر اس کے ملبہ کو مختلف دریاؤں میں بہا دیا۔ یہ مسجد سو برس پرانی بتائی جاتی ہے۔ سنی سینٹرل وقف بورڈ سمیت یہ مسجد تحصیل کے دستاویز میں بھی درج ہے۔ اس مسجد میں برسہا برس سے نماز بھی ہوتی آ رہی ہے۔

مسجد غریب نواز کی جگہ پر پارک کی تعمیر کے لیے سنگِ بنیاد رکھ دیا گیا
مسجد غریب نواز کی جگہ پر پارک کی تعمیر کے لیے سنگِ بنیاد رکھ دیا گیا
  • الہٰ آباد ہائی کورٹ نے مسمار ی پر حکم التوا جاری کیا تھا

لیکن اتنے ثبوت اور دستاویز کے باوجود انتظامیہ کو یہ مسجد غیر قانونی ہی محسوس ہوتی رہی۔ ان تمام باتوں سے الگ انتظامیہ نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسجد کو اس وقت مسمار کردیا، جب الہٰ آباد ہائی کورٹ نے مسمار کرنے کی تمام کارروائی کو 31 مئی تک ملتوی کرنے کا حکم دے رکھا تھا. اس طرح انتظامیہ کی تمام کارروائی شک و شبہات سے بالاتر نہیں ہے. انتظامیہ اپنے آپ کو صحیح ثابت کرنے لیے اپنی کارروائی کا دائرہ مسلسل بڑھاتا جا رہا ہے.

  • حکومت نے اقلیتی بہبود اور وقف محکمے کی سہ رکنی ٹیم تشکیل دی

بتایا جارہا ہے کہ اس معاملے میں مسجد کمیٹی کے چھ اراکین اور وقف انسپیکٹر کے خلاف مسجد کو سنی سینٹرل بورڈ میں جعلسازی سے متعلق کیس درج کیا گیا ہے. ساتھ ہی ضلع مجسٹریٹ کی شکایت پر حکومت نے اقلیتی بہبود اور وقف محکمے کی سہ رکنی ٹیم تشکیل کی ہے جو اس کی تحقیقات کرے گی۔ دوسری جانب اس معاملے پر سیاست بھی گرم ہے. حزب اختلاف کی تمام پارٹیاں حکومت پر شدید نکتہ چینی کر رہی ہیں تو دوسری جانب علاقائی رکن پارلیمان اوپیندر راوت نے وزیراعلیٰ کو خط لکھ کر وقف میں جعلی طریقے سے درج کرائی گئی تمام مسجدوں کی جانچ کرانے کا مطالبہ کیا ہے.

مسجد انتظامیہ نے وزیراعلیٰ کو خط لکھ کر انصاف کا مطالبہ بھی کیا
مسجد انتظامیہ نے وزیراعلیٰ کو خط لکھ کر انصاف کا مطالبہ بھی کیا
  • واقعہ کے تمام پہلوؤں کی کیا ہے تفصیل

ریاست اترپردیش کے ضلع بارہ بنکی کی تحصیل رام سنیہی گھاٹ کے احاطے میں واقع قدیم مسجد سو برس پرانی بتائی جاتی ہے. مسجد کے پیروکاروں کا دعویٰ ہے کہ یہ 1968 سے وقف بورڈ میں درج ہے. جب کہ 1949 سے اس کا بجلی کا بل بھی آ رہا ہے. دعویٰ یہ بھی ہے کہ یہ مسجد تحصیل کی تعمیر سے قبل سے قائم ہے. جب نئی تحصیل تعمیر ہوئی تو وہ ایک دم ایس ڈی ایم کی رہائش کے سامنے آ گئی. برسوں سے اس میں نماز ادا ہوتی آ رہی تھی. اس کی تصویریں بھی وائرل ہیں.

  • مسجد پر اعلیٰ افسران کی نیت کب خراب ہوئی

بتایا جاتا ہے کہ مسجد تنازعہ میں اس وقت آئی جب جمعہ کے روز بھیڑ کی وجہ سے ایک افسر کی گاڑی پھنس گئی. پھر مارچ کے دوسرے ہفتہ میں مسجد کو ہٹانے کی نوٹس جاری کی گئی جس میں ہائی کورٹ کے اس حکم کا حوالہ دیا گیا جس میں عوامی جگہوں سے مذہبی عبادت گاہوں کو ہٹانے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس نوٹس کے ساتھ ہی مسجد میں نماز پر پابندی ہو گئی۔ اس دوران 19 مارچ کی شب جب ایک خاص مذہب کے لوگوں کو محسوس ہوا کہ مسجد کو مسمار کرنے کی کوشش ہو رہی ہے تو مسجد کے پاس ان لوگوں نے یکجا ہو کر اس کی مخالفت کی اور پتھراؤ بھی کیا۔ اس میں حالات کشیدہ ہوئے اور 22 نامزد سمیت کل 150 افراد پر کیس درج کیا گیا۔ یہی نہیں 22 افراد گرفتار بھی کئے گئے۔

  • نوٹس کے خلاف مسجد کمیٹی ہائی کورٹ سے رجوع

نوٹس کے خلاف مسجد کمیٹی کے لوگوں نے ہائی کورٹ کا رخ کیا اور عدالت سے رجوع ہوتے ہوئے مسجد کو مسمار کئے جانے کا اندیشہ ظاہر کیا. بتایا جاتا ہے انتظامیہ نے عدالت میں اپنا رخ اس طرح رکھا کہ عدالت اس بات سے مطمئن ہو گئی کہ مسجد مسمار ہونے کا کوئی خدشہ نہیں ہے. ہائی کورٹ نے واضح طور آبزرو کیا کہ مسجد کو مسمار کرنے کے کوئی امکانات نہیں ہیں. اسی بنا پر عدالت نے عرضی مئی کے پہلے ہفتے میں خارج کر دی. لیکن 17 مئی کی دیر رات تحصیل کے آس پاس کے علاقے کو چھاؤنی میں تبدیل کرکے مسجد کو مسمار کر دیا گیا اور راتوں رات اس کا ملبہ دریاٶں میں بہا دیا گیا. انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ مسجد کمیٹی کو اس کے قانونی ہونے کے ثبوت طلب کئے گئے تھے. جب وہ اس میں ناکام رہے تو اسے مسمار کر دیا گیا۔

راتوں رات مسجد کا ملبہ دریاٶں میں بہا دیا گیا
راتوں رات مسجد کا ملبہ دریاٶں میں بہا دیا گیا
  • انتظاميہ کی کارروائی عدالت کے حکم کی خلاف ورزی

انتظاميہ کی تمام دلیلیں کسی کی حلق سے نہیں اتر رہی ہیں. ان کی بات پر یقین کیا بھی جائے تو مسجد کو مسمار کرنے کی اتنی جلدی کیا تھی کیونکہ کووڈ 19 کی دوسری مہلک لہر کے باعث الہٰ آباد ہائی کورٹ نے حکم جاری کر رکھا تھا کہ کوئی بھی مسمار کی کارروائی 31 مئی تک ملتوی رہے گی چاہے وہ حکم کسی عدالت کا ہی کیوں نہ ہو. اسی وجہ سے یہ معاملہ طول پکڑتا گیا۔ اس معاملے پر سیاست تیز ہو گئی ہے. ایس پی، بی ایس پی، کانگریس اور دیگر اپوزیشن کی پارٹیاں انتظامیہ اور حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں۔ وہیں بی جے پی اپنے افسران کے بچاؤ میں تو ہے ہی. ساتھ ہی وہ اس معاملے کو اور طول دینے میں مصروف ہے. بارہ بنکی سے بی جے پی رکن پارلیمان نے وزیر اعلیٰ کو خط لکھ کر دیگر اور مسجدوں کی تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔

مسجد کو 17 مئی کی دیر رات تحصیل کے آس پاس کے علاقے کو چھاؤنی میں تبدیل کرکے مسمار کر دیا گیا
مسجد کو 17 مئی کی دیر رات تحصیل کے آس پاس کے علاقے کو چھاؤنی میں تبدیل کرکے مسمار کر دیا گیا
  • انتظامیہ کارروائی کو جائز قرار دینے میں مصروف

وہیں انتظامیہ اپنی کارروائی کو جائز ٹھہرانے اور اپنے بچاؤ میں کارروائی کا دائرہ بڑھاتا جا رہا ہے۔ انتظامیہ کے مطابق مسجد کو جعلی طریقے سے 2018 میں سنی سینٹرل وقف بورڈ میں درج کرایا گیا ہے اور اس کے رجسٹریشن کے وقت لی جانے والی این او سی ان سے نہیں لی گئی. اس معاملے میں مسجد کے 6 ذمہ دار سمیت اس وقت کے وقف انسپیکٹر پر مقدمہ درج کرایا گیا ہے۔ ساتھ ہی اس کی تحقیقات کے لئے حکومت سے رجوع کیا گیا ہے جس پر سہ رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔

مسجد غریب نواز کو رام سنیہی گھاٹ تحصیل انتظامیہ نے گزشتہ ماہ مسمار کر دیا تھا اور راتوں رات مسجد کا ملبہ ہٹوا کر اس جگہ کو میدان میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ انتظامیہ کی اس کارروائی کے خلاف تمام علماء اور حزب اختلاف کی پارٹیوں نے احتجاج بھی کیا تھا۔ جمعرات کو مسجد کی جگہ پر پارک کی تعمیر کے لیے اور پارکنگ کے لیے ٹین شیڈ کا علاقائی رکن اسمبلی ستیش شرما نے سنگِ بنیاد رکھتے ہوئے عوام کے نام معنون کر دیا۔

جمعرات کو متعلقہ اسمبلی حلقے کے رکن ستیش کمار شرما نے اس کا باقاعدہ افتتاح کیا
جمعرات کو متعلقہ اسمبلی حلقے کے رکن ستیش کمار شرما نے اس کا باقاعدہ افتتاح کیا
  • مسجد کی جگہ بنے گا "سواتنترتا سنگرام اسمارک بال ادیان"

خبر کے مطابق پارک کے جس پتھر کا فیتہ کاٹ کر افتتاح کیا گیا ہے، اس پر لکھا گیا ہے کہ "سواتنترتا سنگرام اسمارک بال ادیان" جو کہ تحصیل کالونی میں رہنے والے ملازمین کے لئے تعمیر کیا گیا ہے۔ پارک کے سنگِ بنیاد کے وقت سی ڈی او ایکتا سنگھ سمیت تحصیل کے تمام اعلیٰ افسران بھی موجود تھے۔

مسجد کی جگہ بنے گا
مسجد کی جگہ بنے گا "سواتنترتا سنگرام اسمارک بال ادیان"

واضح رہے کہ ضلع بارہ بنکی کی تحصیل رام سنیہی گھاٹ کے احاطے میں واقع قدیم "مسجد خواجہ غریب نواز" جس کو "تحصیل والی مسجد" بھی کہتے ہیں، اسے انتظامیہ نے دوشنبہ 17 مئی 2021 کی دیر رات منہدم کر دیا پھر اس کے ملبہ کو مختلف دریاؤں میں بہا دیا۔ یہ مسجد سو برس پرانی بتائی جاتی ہے۔ سنی سینٹرل وقف بورڈ سمیت یہ مسجد تحصیل کے دستاویز میں بھی درج ہے۔ اس مسجد میں برسہا برس سے نماز بھی ہوتی آ رہی ہے۔

مسجد غریب نواز کی جگہ پر پارک کی تعمیر کے لیے سنگِ بنیاد رکھ دیا گیا
مسجد غریب نواز کی جگہ پر پارک کی تعمیر کے لیے سنگِ بنیاد رکھ دیا گیا
  • الہٰ آباد ہائی کورٹ نے مسمار ی پر حکم التوا جاری کیا تھا

لیکن اتنے ثبوت اور دستاویز کے باوجود انتظامیہ کو یہ مسجد غیر قانونی ہی محسوس ہوتی رہی۔ ان تمام باتوں سے الگ انتظامیہ نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسجد کو اس وقت مسمار کردیا، جب الہٰ آباد ہائی کورٹ نے مسمار کرنے کی تمام کارروائی کو 31 مئی تک ملتوی کرنے کا حکم دے رکھا تھا. اس طرح انتظامیہ کی تمام کارروائی شک و شبہات سے بالاتر نہیں ہے. انتظامیہ اپنے آپ کو صحیح ثابت کرنے لیے اپنی کارروائی کا دائرہ مسلسل بڑھاتا جا رہا ہے.

  • حکومت نے اقلیتی بہبود اور وقف محکمے کی سہ رکنی ٹیم تشکیل دی

بتایا جارہا ہے کہ اس معاملے میں مسجد کمیٹی کے چھ اراکین اور وقف انسپیکٹر کے خلاف مسجد کو سنی سینٹرل بورڈ میں جعلسازی سے متعلق کیس درج کیا گیا ہے. ساتھ ہی ضلع مجسٹریٹ کی شکایت پر حکومت نے اقلیتی بہبود اور وقف محکمے کی سہ رکنی ٹیم تشکیل کی ہے جو اس کی تحقیقات کرے گی۔ دوسری جانب اس معاملے پر سیاست بھی گرم ہے. حزب اختلاف کی تمام پارٹیاں حکومت پر شدید نکتہ چینی کر رہی ہیں تو دوسری جانب علاقائی رکن پارلیمان اوپیندر راوت نے وزیراعلیٰ کو خط لکھ کر وقف میں جعلی طریقے سے درج کرائی گئی تمام مسجدوں کی جانچ کرانے کا مطالبہ کیا ہے.

مسجد انتظامیہ نے وزیراعلیٰ کو خط لکھ کر انصاف کا مطالبہ بھی کیا
مسجد انتظامیہ نے وزیراعلیٰ کو خط لکھ کر انصاف کا مطالبہ بھی کیا
  • واقعہ کے تمام پہلوؤں کی کیا ہے تفصیل

ریاست اترپردیش کے ضلع بارہ بنکی کی تحصیل رام سنیہی گھاٹ کے احاطے میں واقع قدیم مسجد سو برس پرانی بتائی جاتی ہے. مسجد کے پیروکاروں کا دعویٰ ہے کہ یہ 1968 سے وقف بورڈ میں درج ہے. جب کہ 1949 سے اس کا بجلی کا بل بھی آ رہا ہے. دعویٰ یہ بھی ہے کہ یہ مسجد تحصیل کی تعمیر سے قبل سے قائم ہے. جب نئی تحصیل تعمیر ہوئی تو وہ ایک دم ایس ڈی ایم کی رہائش کے سامنے آ گئی. برسوں سے اس میں نماز ادا ہوتی آ رہی تھی. اس کی تصویریں بھی وائرل ہیں.

  • مسجد پر اعلیٰ افسران کی نیت کب خراب ہوئی

بتایا جاتا ہے کہ مسجد تنازعہ میں اس وقت آئی جب جمعہ کے روز بھیڑ کی وجہ سے ایک افسر کی گاڑی پھنس گئی. پھر مارچ کے دوسرے ہفتہ میں مسجد کو ہٹانے کی نوٹس جاری کی گئی جس میں ہائی کورٹ کے اس حکم کا حوالہ دیا گیا جس میں عوامی جگہوں سے مذہبی عبادت گاہوں کو ہٹانے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس نوٹس کے ساتھ ہی مسجد میں نماز پر پابندی ہو گئی۔ اس دوران 19 مارچ کی شب جب ایک خاص مذہب کے لوگوں کو محسوس ہوا کہ مسجد کو مسمار کرنے کی کوشش ہو رہی ہے تو مسجد کے پاس ان لوگوں نے یکجا ہو کر اس کی مخالفت کی اور پتھراؤ بھی کیا۔ اس میں حالات کشیدہ ہوئے اور 22 نامزد سمیت کل 150 افراد پر کیس درج کیا گیا۔ یہی نہیں 22 افراد گرفتار بھی کئے گئے۔

  • نوٹس کے خلاف مسجد کمیٹی ہائی کورٹ سے رجوع

نوٹس کے خلاف مسجد کمیٹی کے لوگوں نے ہائی کورٹ کا رخ کیا اور عدالت سے رجوع ہوتے ہوئے مسجد کو مسمار کئے جانے کا اندیشہ ظاہر کیا. بتایا جاتا ہے انتظامیہ نے عدالت میں اپنا رخ اس طرح رکھا کہ عدالت اس بات سے مطمئن ہو گئی کہ مسجد مسمار ہونے کا کوئی خدشہ نہیں ہے. ہائی کورٹ نے واضح طور آبزرو کیا کہ مسجد کو مسمار کرنے کے کوئی امکانات نہیں ہیں. اسی بنا پر عدالت نے عرضی مئی کے پہلے ہفتے میں خارج کر دی. لیکن 17 مئی کی دیر رات تحصیل کے آس پاس کے علاقے کو چھاؤنی میں تبدیل کرکے مسجد کو مسمار کر دیا گیا اور راتوں رات اس کا ملبہ دریاٶں میں بہا دیا گیا. انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ مسجد کمیٹی کو اس کے قانونی ہونے کے ثبوت طلب کئے گئے تھے. جب وہ اس میں ناکام رہے تو اسے مسمار کر دیا گیا۔

راتوں رات مسجد کا ملبہ دریاٶں میں بہا دیا گیا
راتوں رات مسجد کا ملبہ دریاٶں میں بہا دیا گیا
  • انتظاميہ کی کارروائی عدالت کے حکم کی خلاف ورزی

انتظاميہ کی تمام دلیلیں کسی کی حلق سے نہیں اتر رہی ہیں. ان کی بات پر یقین کیا بھی جائے تو مسجد کو مسمار کرنے کی اتنی جلدی کیا تھی کیونکہ کووڈ 19 کی دوسری مہلک لہر کے باعث الہٰ آباد ہائی کورٹ نے حکم جاری کر رکھا تھا کہ کوئی بھی مسمار کی کارروائی 31 مئی تک ملتوی رہے گی چاہے وہ حکم کسی عدالت کا ہی کیوں نہ ہو. اسی وجہ سے یہ معاملہ طول پکڑتا گیا۔ اس معاملے پر سیاست تیز ہو گئی ہے. ایس پی، بی ایس پی، کانگریس اور دیگر اپوزیشن کی پارٹیاں انتظامیہ اور حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں۔ وہیں بی جے پی اپنے افسران کے بچاؤ میں تو ہے ہی. ساتھ ہی وہ اس معاملے کو اور طول دینے میں مصروف ہے. بارہ بنکی سے بی جے پی رکن پارلیمان نے وزیر اعلیٰ کو خط لکھ کر دیگر اور مسجدوں کی تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔

مسجد کو 17 مئی کی دیر رات تحصیل کے آس پاس کے علاقے کو چھاؤنی میں تبدیل کرکے مسمار کر دیا گیا
مسجد کو 17 مئی کی دیر رات تحصیل کے آس پاس کے علاقے کو چھاؤنی میں تبدیل کرکے مسمار کر دیا گیا
  • انتظامیہ کارروائی کو جائز قرار دینے میں مصروف

وہیں انتظامیہ اپنی کارروائی کو جائز ٹھہرانے اور اپنے بچاؤ میں کارروائی کا دائرہ بڑھاتا جا رہا ہے۔ انتظامیہ کے مطابق مسجد کو جعلی طریقے سے 2018 میں سنی سینٹرل وقف بورڈ میں درج کرایا گیا ہے اور اس کے رجسٹریشن کے وقت لی جانے والی این او سی ان سے نہیں لی گئی. اس معاملے میں مسجد کے 6 ذمہ دار سمیت اس وقت کے وقف انسپیکٹر پر مقدمہ درج کرایا گیا ہے۔ ساتھ ہی اس کی تحقیقات کے لئے حکومت سے رجوع کیا گیا ہے جس پر سہ رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔

Last Updated : Jun 4, 2021, 11:16 AM IST

For All Latest Updates

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.