ETV Bharat / state

ملک میں آج بھی بندھوا مزدوری برقرار - bandhua mazduri نعوس

آج بھی ملک میں 'بندھوا مزدوری' کے جال میں بڑی تعداد میں لوگ جکڑے ہوئے ہیں۔

ملک میں آج بھی بندھوا مزدوری برقرار
author img

By

Published : Sep 3, 2019, 2:26 PM IST

Updated : Sep 29, 2019, 7:07 AM IST

ریاست مہاراشٹر کے پونے شہر سے اترپردیش کے 19 مزدوروں کو ریسکیو کرا کر بندھوا مزدوری سے آزاد کرایا گیا، جس میں مرد کے ساتھ خواتین اور سب سے تعجب خیز بات یہ ہے کہ اس میں آٹھ سال کا ایک بچہ بھی بندھوا مزدور کے طور پر کام کر رہا تھا۔

ملک میں آج بھی بندھوا مزدوری برقرار

ریسکیو کے بعد پونے کلکٹر نے سبھی کو سند دی۔ تین افراد کے خلاف مقدمہ درج کر کے گرفتار کیا گیا۔

ان مزدوروں میں اترپردیش کے سہارنپور پور، بجنور، مظفرنگر اور سیتا پور کے کل 19افراد مہاراشٹر کے پونے شہر میں روزی روٹی کی تلاش میں گئے تھے۔

جہاں انہیں گڑ بنانے کی فیکٹری میں کام ملا۔ مزدور کام کرنے لگے لیکن مالک انہیں پیسہ نہیں دیا۔ جب کہ بارہ گھنٹے کی جگہ اٹھارہ سے بیس گھنٹے کام کرواتے تھے۔

پیسہ مانگنے پر مزدوروں کو جانوروں کی طرح مارا پیٹا جاتا تھا۔ ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران محمد ذیشان نے نے بتایا کہ انہوں نے جب اس کے خلاف آواز اٹھائی تو انہیں تین دن تک الگ کمرے میں بند کر بری طرح مارا پیٹا گیا۔

محمد ذیشان کہتے ہیں کہ اب وہ پلمبر کا کام کرکے یہی اپنی زندگی گزاریں گے۔ انہوں نے ای ٹی وی بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ ہماری طرح وہاں پر ہزاروں کی تعداد میں بندھوا مزدوری کے جال میں ہزاروں لوگ پھنسے ہوئے ہیں انہیں بھی آزاد کرایا جائے۔

بجنور کی رہنے والی چیتنا اپنے تین بچوں کے ساتھ جس میں ایک شیر خوار بچی ہے، وہاں بھٹی میں آگ جلانے کا کام کرتی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ بارہ گھنٹے کی جگہ پر سے 24 گھنٹے کام کرایا جاتا تھا لیکن ایک روپیہ بھی نہیں دیا جاتا تھا۔

اس معاملے میں سب سے دل دہلانے والی بات یہ ہے کہ ان 19 بندھوا مزدوروں میں ونیت نام کا ایک آٹھ سال کا بچہ بھی تھا، جو اپنے ماں باپ کے ساتھ وہاں گیا تھا۔

اسے بھی بندھوا مزدور بناکر اٹھارہ سے بیس گھنٹے کام کروایا جاتا تھا لیکن پیسہ نہیں دیا جاتا تھا۔ زندہ رہنا ہے تو پیٹ کی آگ ٹھنڈی کرنا ضروری ہے۔ اس کے لیے وہ لوگ گاؤں کی دوکان سے سامان خریدتے تھے، تب جاکر ان کے پیٹ میں کھانا جاتا تھا۔

ونیت نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران بتایا کہ اب میں اسکول جاکر دوسرے بچوں کی طرح تعلیم حاصل کروں گا۔

ان مزدوروں کو آزاد کرانے 'ایکش ایڈ' ایک تنظیم ہے، جس کے سربراہ چودھری خالد نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ چونکہ میں مظفر نگر فسادات کے دوران وہاں پر فلاحی کام کیا تھا۔

مظفر نگر کے متاثر بھی وہاں بندھوا مزدور کے طور پر پھنسے تھے۔ انہیں میں محمد عارف نے اپنے والد کو فون کرکے ظلم وزیادتی کی اطلاع دی۔ جس کے بعد اہل خانہ نے 'ایکشن ایڈ' سے رابطہ کیا۔

تنظیم کے اہلکاروں نے پہلے معاملہ کی جانچ کی اس کے بعد اپنی تنظیم کے ممبئی شاخ کے لوگوں سے رابطہ کیا اور انہیں باآسانی آزاد کرا دیا گیا۔

چودھری نے کہا کہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ ان سب مزدوروں کو حکومت کی جانب سے زمین جائیداد اور کچھ پیسہ ملے تاکہ وہ اپنا گزرا ہی کرسکیں۔

ریاست مہاراشٹر کے پونے شہر سے اترپردیش کے 19 مزدوروں کو ریسکیو کرا کر بندھوا مزدوری سے آزاد کرایا گیا، جس میں مرد کے ساتھ خواتین اور سب سے تعجب خیز بات یہ ہے کہ اس میں آٹھ سال کا ایک بچہ بھی بندھوا مزدور کے طور پر کام کر رہا تھا۔

ملک میں آج بھی بندھوا مزدوری برقرار

ریسکیو کے بعد پونے کلکٹر نے سبھی کو سند دی۔ تین افراد کے خلاف مقدمہ درج کر کے گرفتار کیا گیا۔

ان مزدوروں میں اترپردیش کے سہارنپور پور، بجنور، مظفرنگر اور سیتا پور کے کل 19افراد مہاراشٹر کے پونے شہر میں روزی روٹی کی تلاش میں گئے تھے۔

جہاں انہیں گڑ بنانے کی فیکٹری میں کام ملا۔ مزدور کام کرنے لگے لیکن مالک انہیں پیسہ نہیں دیا۔ جب کہ بارہ گھنٹے کی جگہ اٹھارہ سے بیس گھنٹے کام کرواتے تھے۔

پیسہ مانگنے پر مزدوروں کو جانوروں کی طرح مارا پیٹا جاتا تھا۔ ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران محمد ذیشان نے نے بتایا کہ انہوں نے جب اس کے خلاف آواز اٹھائی تو انہیں تین دن تک الگ کمرے میں بند کر بری طرح مارا پیٹا گیا۔

محمد ذیشان کہتے ہیں کہ اب وہ پلمبر کا کام کرکے یہی اپنی زندگی گزاریں گے۔ انہوں نے ای ٹی وی بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ ہماری طرح وہاں پر ہزاروں کی تعداد میں بندھوا مزدوری کے جال میں ہزاروں لوگ پھنسے ہوئے ہیں انہیں بھی آزاد کرایا جائے۔

بجنور کی رہنے والی چیتنا اپنے تین بچوں کے ساتھ جس میں ایک شیر خوار بچی ہے، وہاں بھٹی میں آگ جلانے کا کام کرتی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ بارہ گھنٹے کی جگہ پر سے 24 گھنٹے کام کرایا جاتا تھا لیکن ایک روپیہ بھی نہیں دیا جاتا تھا۔

اس معاملے میں سب سے دل دہلانے والی بات یہ ہے کہ ان 19 بندھوا مزدوروں میں ونیت نام کا ایک آٹھ سال کا بچہ بھی تھا، جو اپنے ماں باپ کے ساتھ وہاں گیا تھا۔

اسے بھی بندھوا مزدور بناکر اٹھارہ سے بیس گھنٹے کام کروایا جاتا تھا لیکن پیسہ نہیں دیا جاتا تھا۔ زندہ رہنا ہے تو پیٹ کی آگ ٹھنڈی کرنا ضروری ہے۔ اس کے لیے وہ لوگ گاؤں کی دوکان سے سامان خریدتے تھے، تب جاکر ان کے پیٹ میں کھانا جاتا تھا۔

ونیت نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران بتایا کہ اب میں اسکول جاکر دوسرے بچوں کی طرح تعلیم حاصل کروں گا۔

ان مزدوروں کو آزاد کرانے 'ایکش ایڈ' ایک تنظیم ہے، جس کے سربراہ چودھری خالد نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ چونکہ میں مظفر نگر فسادات کے دوران وہاں پر فلاحی کام کیا تھا۔

مظفر نگر کے متاثر بھی وہاں بندھوا مزدور کے طور پر پھنسے تھے۔ انہیں میں محمد عارف نے اپنے والد کو فون کرکے ظلم وزیادتی کی اطلاع دی۔ جس کے بعد اہل خانہ نے 'ایکشن ایڈ' سے رابطہ کیا۔

تنظیم کے اہلکاروں نے پہلے معاملہ کی جانچ کی اس کے بعد اپنی تنظیم کے ممبئی شاخ کے لوگوں سے رابطہ کیا اور انہیں باآسانی آزاد کرا دیا گیا۔

چودھری نے کہا کہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ ان سب مزدوروں کو حکومت کی جانب سے زمین جائیداد اور کچھ پیسہ ملے تاکہ وہ اپنا گزرا ہی کرسکیں۔

Intro:بھارت ایک طرف نئی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ وہیں دوسری جانب اسکا ایک سیاہ پہلو بھی ہے۔

آج بھی ملک میں 'بندوھا مزدوری' کے چنگل میں بڑی تعداد میں لوگ جکڑے ہوئے ہیں۔


Body:تازہ معاملہ مہاراشٹر کے پنے شہر کا ہے جہاں پر یو پی کے 19 مزدوروں کو ریسکیو کرا کر بندھوا مزدوری سے آزاد کرایا گیا، جس میں مرد کے ساتھ خواتین اور سب سے تعجب خیز بات یہ ہے کہ اس میں آٹھ سال کا ایک بچہ بھی بندھوا مزدور کے طور پر کام کر رہا تھا۔

ریسکیو کے بعد پونے کلکٹر نے سبھی کو سند دی۔ تین افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کر کے گرفتار کیا گیا۔

ان مزدوروں میں اترپردیش کے سہارنپور پور، بجنور، مظفرنگر اور سیتا پور کے کل 19افراد مہاراشٹرا کے پونے ضلع میں روزی روٹی کی تلاش میں گئے تھے۔

جہاں انہیں گڑ بنانے کی فیکٹری میں کام ملا۔ مزدور کام کرنے لگے لیکن مالک انہیں پیسہ نہیں دیا۔ جب کہ بارہ گھنٹے کی جگہ اٹھارہ سے بیس گھنٹے کام کرواتے تھے۔

پیسہ مانگنے پر مزدوروں کو جانوروں کی طرح مارا پیٹا جاتا تھا۔ ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران محمد ذیشان نے نے بتایا کہ انہوں نے جب اس کے خلاف آواز اٹھائی تو انہیں تین دن تک الگ کمرے میں بند کر بری طرح مارا پیٹا گیا۔

محمد ذیشان کہتے ہیں کہ اب وہ پلمبر کا کام کرکے یہی اپنی زندگی گزاریں گے۔ انہوں نے ای ٹی وی بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ ہماری طرح وہاں پر ہزاروں کی تعداد میں بندھوا مزدوری کے جال میں ہزاروں لوگ پھنسے ہوئے ہیں انہیں بھی آزاد کرایا جائے۔

بجنور کی رہنے والی چیتنا اپنے تین بچوں کے ساتھ جس میں ایک شیر خوار بچی ہے، وہاں بھٹی میں آگ جلانے کا کام کرتی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ بارہ گھنٹے کی جگہ پر سے 24 گھنٹے کام کرایا جاتا تھا لیکن ایک روپیہ بھی نہیں دیا جاتا تھا۔

اس معاملے میں سب سے دل دہلانے والی بات یہ ہے کہ ان 19 بندھوا مزدوروں میں ونیت نام کا ایک آٹھ سال کا بچہ بھی تھا، جو اپنے ماں باپ کے ساتھ وہاں گیا تھا۔

اسے بھی بندھوا مزدور بناکر اٹھارہ سے بیس گھنٹے کام کروایا جاتا تھا لیکن پیسہ نہیں دیا جاتا تھا۔ زندہ رہنا ہے تو پیٹ کی آگ ٹھنڈی کرنا ضروری ہے۔ اس کے لیے وہ لوگ گاؤں کی دوکان سے سامان خریدتے تھے، تب جاکر ان کے پیٹ میں کھانا جاتا تھا۔

ونیت نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران بتایا کہ اب میں اسکول جاکر دوسرے بچوں کی طرح تعلیم حاصل کروں گا۔


Conclusion:ان مزدوروں کو آزاد کرانے 'ایکش ایڈ' ایک تنظیم ہے، جس کے سربراہ چودھری خالد نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ چونکہ میں مظفر نگر فسادات کے دوران وہاں پر فلاحی کام کیا تھا۔

مظفر نگر کے متاثر بھی وہاں بندھوا مزدور کے طور پر پھنسے تھے۔ انہیں میں محمد عارف نے اپنے والد کو فون کرکے ظلم وزیادتی کی اطلاع دی۔ جس کے بعد اہل خانہ نے 'ایکشن ایڈ' سے رابطہ کیا۔

تنظیم کے اہلکاروں نے پہلے معاملہ کی جانچ کی اس کے بعد اپنی تنظیم کے ممبئی شاخ کے لوگوں سے رابطہ کیا اور انہیں باآسانی آزاد کرا دیا گیا۔

مسٹر چودھری نے کہا کہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ ان سب مزدوروں کو حکومت کی جانب سے زمین جائیداد اور کچھ پیسہ ملے تاکہ وہ اپنا گزر یہی کرسکیں۔
Last Updated : Sep 29, 2019, 7:07 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.