بنارسی صنعت میں زردوزی کے کام کی ایک منفرد شناخت ہے۔ جس کے لیے ملک و بیرون ملک سے کاروباری زردوزی کے کام کے لیے رابطہ کرتے ہیں۔ لیکن موجودہ وقت میں ایسا نہیں ہے۔ اب اس صنعت کو زوال ہورہا ہے۔
علاقائی لوگوں کی مانیں تو وہ کہتے ہیں کہ ایک زمانہ تھا جب زرداری کے کاریگر اچھی زندگی بسر کررہے تھے، آمدنی کے اعتبار سے یہ کام اچھے کاروبار میں شمار کیا جاتا تھا لیکن رفتہ رفتہ یہ کاروبار دم توڑتا گیا اور ہزاروں کی تعداد میں کام کرنے والے کاریگر اب گنتی کے چند رہ گئے ہیں۔
ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کاریگر محمد گڈو نے بتایا کہ اس کہ سب سے بڑی وجہ یہ رہی ہے کہ کاریگروں کو مناسب مزدوری نہیں ملتی ہے، جس کی وجہ سے بیشتر کاریگر دوسرے کاروبار سے وابستہ ہوگئے ہیں۔
گڈو بتاتے ہیں کہ لاک ڈاؤن سے اب تک زردوزی کے کاریگر قرض لیکر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ بنارس میں زردوزی کا کاروبار کافی معیاری ہوتا ہے۔ اس جانب غیر ملکی افراد زیادہ مائل ہوتے ہیں لیکن جو مزدوری 15 برس قبل ملتی تھی اسی مزدوری پر آج بھی اکتفا کرنا پڑرہا ہے۔
انہوں نے بتایا اس کاروبار سے صرف دو وقت کا کھانا کھایا جا سکتا ہے اس کے علاوہ اپنے بچوں کو تعلیم بھی نہیں دے سکتے۔
بتا دیں کہ لاک ڈاؤن کے بعد سے حکومت کی جانب سے کوئی مالی امداد نہیں پہونچی جس سے زردوزی کاریگر سخت برہم ہیں۔