بہوجن کرانتی مورچہ کی جانب 29 جنوری کو بھارت بند کا اعلان کیا گیا تھا اسی کے مدنظر کانپور میں بہو جن کرانتی مورچہ نے ہرش نگر سے ایک جلوس نکالا جس میں بڑی تعداد میں دلت سماج کے لوگ شامل ہوئے۔
جلوس جب مسلم علاقوں میں داخل ہوا تو کثیر تعداد میں مسلمان بھی اس میں شامل ہوگئے۔ پولیس کے لیے یہ بڑا سر درد ہوگیا کہ جلوس کا کوئی مقررہ مقام نہیں تھا اس لیے پولیس اور احتجاجیوں کی کئی جگہ پر جھڑپیں بھی ہوئی۔
شہری ترمیمی قانون، این آر سی اور این پی ار کے خلاف پورے ملک میں اختجاج جاری ہے۔ اس قانون کے خلاف بہوجن کرانتی مورچہ نے 29 جنوری کو بھارت بند کا اعلان کردیا تھا۔
کانپور میں بھی بہوجن کرانتی مورچہ پچھلے کچھ دنوں سے بھارت بند کی تیاری میں لگا ہوا تھا۔ مورچہ کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں مسلمان بھی اس بند میں شامل تھے۔
بہوجن کرانتی مورچہ کا یہ جلوس ہرش نگر کی دلت بستی سے شروع ہو گیا جس میں بڑی تعداد میں دلت سماج کی عورتیں اور مرد شامل تھے۔
جلوس کو مال روڈ پر واقع گاندھی مجسمے پر پہنچ کر اختتام ہونا تھا تاہم جلوس مسلم علاقہ میں داخل ہوگیا جو ضلع انتظامیہ کے لیے بڑی پریشانی کا سبب بن گیا۔
ضلع انتظامیہ نے جلوس کو آگے جانے کی اجازت نہیں دی تاہم مظاہرین برابر نعرے لگاتے رہے، آخر میں شہر کے قاضی مولانا عبدلقداس ہادی اور معززین کی قیادت میں طے ہوا کہ جلوس کو یتیم خانہ سے موڑ کر طلاق محل ہوتے چمن گنج میں واقع محمد علی پار پر ختم کیا جائے گا جہاں پر پہلے سے خواتین کا احتجاج جاری تھا۔
بعدازاں مولانا عبدلقداس ہادی نے جلوس کی قیادت کی اور یتیم خانہ چوراہے سے طلاق محل ہوتے ہوئے چمن گنج میں واقع محمد علی پارک پر جلوس کا اختتام کیا۔