تاریخی حوالے سے کہا جاتا ہے کہ پانچویں صدی ہجری میں سید سالار مسعود غازی علیہ الرحمہ نے بنارس میں حضرت ملک افضل علوی کی قیادت میں ایک قافلہ روانہ کیا تھا، جس میں حضرت بہادر شہید بھی شامل تھے۔
قافلے کا مقصد صوفی تعلیمات کو عام کرنا تھا۔ یہ حضرات بنارس و اطراف میں صوفی تعلیمات کی خوب تبلیغ و اشاعت کی، جس کے اثر سے عوام ان کے اخلاق و کردار سے خوب متاثر ہوئی۔
بنارس کی سرزمین اتنا محبوب ہوا کہ اس قافلے میں شامل معزز ہستیاں بنارس میں ہی مدفون ہیں اور اہل بنارس و اطراف کے لوگوں کو اپنے فیوض و برکات سے نواز رہے ہیں۔
ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے سجادہ نشین صغیر احمد نے کہا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے گذشتہ مارچ ماہ سے درگاہ بند ہے۔ زائرین زیارت سے محروم ہوکر واپس چلے جاتے ہیں۔ ابھی تک مزار کھولنے کے سلسلے میں حکومت کی جانب سے تحریری یا تقریری بیان نہیں آیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اگر مزار کھولنے کی اجازت ملتی ہے، تو کورونا وائرس سے حفاظت کے ہر ممکن اقدامات کئے جائیں گے۔
زائرہ روشنی جیسوال نے بتایا کہ بابا کے مزار پر ہر مذہب کے ماننے والے آتے ہیں اور اپنی حاجت کے لیے دعا کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یہاں پر مذہبی اعتبار سے کوئی امتیازی سلوک نہیں ہوتا ہے۔
مزید پڑھیں:
تاج محل کی شاہی مسجد میں جمعہ کی نماز کی اجازت نہیں
بیشتر افراد آسیب زدہ ہوتے ہیں، جن کا ماننا ہے کہ یہاں کے خاک یا پانی سے شفاء ملتی ہے۔ حالانکہ ڈاکٹرز اس دعویٰ کی تردید کرتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ لوگ ذہنی پریشانی سے دوچار ہوتے ہیں۔