رواں برس بھی اسی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے دو روزہ عرس اختتام پزیر ہوا لیکن مزار انتظامیہ کا الزام ہے کہ پولیس انتظامیہ نے زائرین کو تشدد کا نشانہ بنایا ہے اور سجادہ نشین کو ہراساں کیا گیا۔
سجادہ نشین صغیر احمد نے بتایا کہ یہاں پر بنارس و اطراف کے ہزاروں افراد بلا تفریق ملت و مذہب اپنے عقیدت کا اظہار کرنے آتے ہیں۔
تاریخی حوالے سے کہا جاتا ہے کہ پانچویں صدی ہجری میں سید سالار مسعود غازی علیہ الرحمہ نے بنارس میں حضرت ملک افضل علوی کی قیادت میں ایک قافلہ روانہ کیا تھا جس میں حضرت بہادر شہید بھی شامل تھے۔ قافلے کا مقصد صوفی تعلیمات کو عام کرنا تھا یہ حضرات بنارس و اطراف میں صوفی تعلیمات کی خوب تبلیغ و اشاعت کی جس کے اثر سے عوام ان کے اخلاق و کردار سے خوب متاثر ہوئی۔
بنارس کی سرزمین اتنی محبوب ہوئی کہ اس قافلے میں شامل معزز ہستیاں بنارس میں ہی مدفون ہیں اور اہل بنارس و اطراف کے لوگوں کو اپنے فیوض و برکات سے نواز رہے ہیں۔
ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے سجادہ نشین صغیر احمد نے کہا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے پولیس انتظامیہ نے زائرین تشدد کا نشانہ بنایا اور کسی قسم کا پروگرام منعقد نہیں ہونے دیا انہوں نے کہا کہ اس عرس سے ہزاروں افراد کا روزگار وابستہ ہوتا ہے۔ لاکھوں افراد شرکت کرتے تھے لیکن رواں برس عرس سادہ طریقے سے منایا گیا۔
خاص بات یہ ہے کہ حضرت بہادر شہید کے مزار پر انے والے بیشتر افراد آسیب زدہ ہوتے ہیں جن کا ماننا ہے کہ یہاں کے خاک یا پانی سے شفاء ملتی ہے۔حالانکہ ڈاکٹرز اس دعویٰ کی تردید کرتے ہیں ان کے مطابق یہ لوگ ذہنی پریشانی سے دوچار ہوتے ہیں۔