ETV Bharat / state

Rampur Madarsa Alia: کیا مدرسہ عالیہ پر اعظم خاں نے قبضہ کرلیا ہے؟ - Rampur Madarsa Alia

اترپردیش کے رامپور میں واقع عالمی شہرت یافتہ مدرسہ عالیہ Madarsa Alia سے متعلق مدرسہ بورڈ کے چیئرمین افتخار جاوید کی جانب سے جاری کردہ بیان میں سابق ریاستی وزیر اعظم خان Azam Khan پر الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ کیا ہے مدرسہ عالیہ Madarsa Alia کے زوال کے اصل اسباب اور حقیقت؟ اس سے متعلق ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے مدرسہ عالیہ کی تاریخ کا جائزہ لیا۔

کیا مدرسہ عالیہ پر اعظم خاں نے قبضہ کرلیا ہے؟
کیا مدرسہ عالیہ پر اعظم خاں نے قبضہ کرلیا ہے؟
author img

By

Published : Dec 6, 2021, 2:02 PM IST

افتخار جاوید نے اعظم خان پر الزامات عائد کرتے ہوئے کہا کہ ’مدرسہ عالیہ Madarsa Alia سے تعلیم حاصل کرنے والے مولانا محمد علی جوہر کے نام سے یونیورسٹی بناتے ہیں، جیل میں قید اعظم خاں Azam Khan نے اس مدرسہ پر قبضہ جما لیا اور اسے دوسری جگہ صرف دو کمروں میں منتقل کردیا۔

کیا مدرسہ عالیہ پر اعظم خاں نے قبضہ کرلیا ہے؟

رامپور کے مدرسہ عالیہ Madarsa Alia کا نام تو آپ نے ضرور سنا ہوگا۔ یہ مدرسہ ایک مرتبہ پھر اس وقت بحث کا موضوع بن گیا، جب اترپردیش مدرسہ بورڈ کے چیئرمین افتخار جاوید نے گذشتہ دنوں اپنے رامپور دورے کے دوران مدرسہ عالیہ کا ذکر کرتے ہوئے سیتاپور جیل میں قید رامپور کے رکن پارلیمان اعظم خاں پر الزام لگایا تھا کہ انہوں نے مدرسہ عالیہ پر قبضہ کر لیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ کھنو پہنچ کر اس مسئلہ پر کاروائ کریں گے۔

کیا واقعی اعظم خاں Azam Khan نے مدرسہ عالیہ پر قبضہ کیا ہے؟ اور کیا یہ سچ ہے کہ مدرسہ عالیہ کی تعلیمی سرگرمیوں کو اعظم خاں نے ختم کیا تھا؟ ان سوالوں کے جواب کے لئے مدرسہ عالیہ کی بازیابی کی تحریک چلانے والے ایک قدیم طالب علم محمد حسین صابری سے بات کی۔ انہوں نے بتایا کہ مقامی علما نے مدرسہ عالیہ سے ملحق ایک نجی مدرسہ قائم کرلیا تھا اور تمام توجہ نئے مدرسہ پر مرکوز کی گئی تو مدرسہ عالیہ زوال پذیر ہوگیا۔

وہیں مدرسہ عالیہ کی تاریخ سے متعلق سابق پرنسپل مولانا محمد عبدالسلام خاں کی ایک کتاب جسے رضا لائبریری کی جانب سے 2002 میں شائع کیا گیا تھا کے صفحہ 30 پر مدرسہ عالیہ کے زوال کے اسباب کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’مدرسہ عالیہ جو کبھی رامپوری میں تعلیمی سرگرمیوں کا مرکز تھا اور ریاست نے اس کو باقی رکھنے کے متعلق معاہدۂ انضمام میں ایک خاص دفعہ اس مضمون کی رکھی تھی کہ مدرسہ عالیہ (اورینٹل کالج) کو جو تقریباً دو سو سال سے رامپوری زندگی کا ڈھانچہ رہا ہے۔

چنانچہ حکومت اترپردیش نے اس کو ابھی تک باقی رکھا ہے، لیکن اس میں شبہ نہیں کہ وہ اس کے خود بہ خود فنا ہوجانے کا انتظار کر رہی ہے کہ نہ رہے گا بانس نہ رہے گی بانسری، جیسا کہ آئندہ واضح ہو جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی اس کتاب میں مدرسہ عالیہ کی زوال کی انہوں نے کئی وجوہات بتائیں۔ یہاں ہم آپ کو یہ بھی بتا دیں کہ یہ کتاب سن 2002 میں شائع ہوئی تھی اور اعظم خاں نے اس مدرسہ میں تعلیمی سلسلہ 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اسی بات کو بنیاد بناکر موجودہ حکومت اور اعظم خاں سے سیاسی بغض و عداوت رکھنے والے لوگ الزامات عائد کرتے رہے ہیں کہ اعظم خاں نے مدرسہ عالیہ پر قبضہ کر لیا ہے اور یہاں اپنا تعلیمی ادارہ قائم کر دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

Protest in Rampur: رامپور میں محکمہ بجلی کے خلاف احتجاج

رامپور اگرچہ چھوٹی سی ریاست تھی لیکن برسغیر اور دوسرے ملکوں میں اس کی شہرت کی بڑی وجہ مدرسہ عالیہ ہی تھی۔ مدرسہ عالیہ کا قیام نواب فیض اللہ خاں کے عہد میں 1774ء میں ہوا تھا۔ بہرحال اب دیکھنا ہوگا کہ جس طرح سے اعظم خاں نے اس مدرسہ میں دوبارہ تعلیم کا سلسلہ شروع کیا ہے، کیا آئندہ برسوں میں مدرسہ عالیہ اپنی اسی شان و شوکت کے ساتھ دنیا کے نقشے پر نظر آ سکے گا یا نہیں؟

افتخار جاوید نے اعظم خان پر الزامات عائد کرتے ہوئے کہا کہ ’مدرسہ عالیہ Madarsa Alia سے تعلیم حاصل کرنے والے مولانا محمد علی جوہر کے نام سے یونیورسٹی بناتے ہیں، جیل میں قید اعظم خاں Azam Khan نے اس مدرسہ پر قبضہ جما لیا اور اسے دوسری جگہ صرف دو کمروں میں منتقل کردیا۔

کیا مدرسہ عالیہ پر اعظم خاں نے قبضہ کرلیا ہے؟

رامپور کے مدرسہ عالیہ Madarsa Alia کا نام تو آپ نے ضرور سنا ہوگا۔ یہ مدرسہ ایک مرتبہ پھر اس وقت بحث کا موضوع بن گیا، جب اترپردیش مدرسہ بورڈ کے چیئرمین افتخار جاوید نے گذشتہ دنوں اپنے رامپور دورے کے دوران مدرسہ عالیہ کا ذکر کرتے ہوئے سیتاپور جیل میں قید رامپور کے رکن پارلیمان اعظم خاں پر الزام لگایا تھا کہ انہوں نے مدرسہ عالیہ پر قبضہ کر لیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ کھنو پہنچ کر اس مسئلہ پر کاروائ کریں گے۔

کیا واقعی اعظم خاں Azam Khan نے مدرسہ عالیہ پر قبضہ کیا ہے؟ اور کیا یہ سچ ہے کہ مدرسہ عالیہ کی تعلیمی سرگرمیوں کو اعظم خاں نے ختم کیا تھا؟ ان سوالوں کے جواب کے لئے مدرسہ عالیہ کی بازیابی کی تحریک چلانے والے ایک قدیم طالب علم محمد حسین صابری سے بات کی۔ انہوں نے بتایا کہ مقامی علما نے مدرسہ عالیہ سے ملحق ایک نجی مدرسہ قائم کرلیا تھا اور تمام توجہ نئے مدرسہ پر مرکوز کی گئی تو مدرسہ عالیہ زوال پذیر ہوگیا۔

وہیں مدرسہ عالیہ کی تاریخ سے متعلق سابق پرنسپل مولانا محمد عبدالسلام خاں کی ایک کتاب جسے رضا لائبریری کی جانب سے 2002 میں شائع کیا گیا تھا کے صفحہ 30 پر مدرسہ عالیہ کے زوال کے اسباب کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’مدرسہ عالیہ جو کبھی رامپوری میں تعلیمی سرگرمیوں کا مرکز تھا اور ریاست نے اس کو باقی رکھنے کے متعلق معاہدۂ انضمام میں ایک خاص دفعہ اس مضمون کی رکھی تھی کہ مدرسہ عالیہ (اورینٹل کالج) کو جو تقریباً دو سو سال سے رامپوری زندگی کا ڈھانچہ رہا ہے۔

چنانچہ حکومت اترپردیش نے اس کو ابھی تک باقی رکھا ہے، لیکن اس میں شبہ نہیں کہ وہ اس کے خود بہ خود فنا ہوجانے کا انتظار کر رہی ہے کہ نہ رہے گا بانس نہ رہے گی بانسری، جیسا کہ آئندہ واضح ہو جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی اس کتاب میں مدرسہ عالیہ کی زوال کی انہوں نے کئی وجوہات بتائیں۔ یہاں ہم آپ کو یہ بھی بتا دیں کہ یہ کتاب سن 2002 میں شائع ہوئی تھی اور اعظم خاں نے اس مدرسہ میں تعلیمی سلسلہ 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اسی بات کو بنیاد بناکر موجودہ حکومت اور اعظم خاں سے سیاسی بغض و عداوت رکھنے والے لوگ الزامات عائد کرتے رہے ہیں کہ اعظم خاں نے مدرسہ عالیہ پر قبضہ کر لیا ہے اور یہاں اپنا تعلیمی ادارہ قائم کر دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

Protest in Rampur: رامپور میں محکمہ بجلی کے خلاف احتجاج

رامپور اگرچہ چھوٹی سی ریاست تھی لیکن برسغیر اور دوسرے ملکوں میں اس کی شہرت کی بڑی وجہ مدرسہ عالیہ ہی تھی۔ مدرسہ عالیہ کا قیام نواب فیض اللہ خاں کے عہد میں 1774ء میں ہوا تھا۔ بہرحال اب دیکھنا ہوگا کہ جس طرح سے اعظم خاں نے اس مدرسہ میں دوبارہ تعلیم کا سلسلہ شروع کیا ہے، کیا آئندہ برسوں میں مدرسہ عالیہ اپنی اسی شان و شوکت کے ساتھ دنیا کے نقشے پر نظر آ سکے گا یا نہیں؟

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.