علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہمیشہ سے سماج دشمن عناصر کی آنکھوں میں کھٹکتی ہے۔ موجودہ وقت میں جب کورونا کی وبا کا سامنا ہے تو ایسے میں سماج دشمن عناصر نے ایک نیا شوشہ چھوڑا گیا ہے کہ یہاں کی ایک غیر مسلم طالبہ کو ایک طالب علم کے ذریعہ زبردستی حجاب پہنانے کی کوشش کی گئی۔
اے ایم یو طلبہ یونین کے سابق صدر فیض الحسن نے ای ٹی وی سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ رہبر دانش نے بتایا کہ بچی سے ایک چھوٹا سا کمنٹ تھا اس کو جب خاندان والوں نے معاف کر دیا تو یہ بات وہیں پر ختم ہو جانی چاہییے تھی اب اس پر اتنا بڑا مسئلہ بنانے کی ضرورت نہیں تھی۔لیکن بات یہ ہے ہندو سخت گیر تنظیمیں اے بی وی پی ، آر ایس ایس، بجرنگ دل، وی ایچ پی ایسے ہنگامہ کررہی ہیں جیسے انہیں ان کو اصل مدعا مل گیا ہو ۔
فیض الحسن نے کہا کہ حکومت کی ناکامی کی وجہ سے ملک میں کورونا کے 11 لاکھ سے زائد کیسز ہو گئے، معیشت خراب ہو گئی، نیپال، چین سمیت سبھی پڑوسی ممالک ہمارے خلاف ہوگئے ہیں اس پر بات اس لیے نہیں کر رہے ہیں کیونکہ وہ ناکام ہوگئے، اس لیے وہ اس طرح کے ہندو مسلم موضوع لاکر ورغلانے کی کوشش کررہی ہیں ، یہی وجہ ہے کہ اے ایم یو کے اس ایشو کو اتنا زیادہ طول دے رہی ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ ایک لڑکی کے لیے کھڑے ہورہے ہیں لیکن وہیں دوسرے لڑکے کی ماں بہن کی گالیاں دے رہے ہیں یہ کہاں کا انصاف ہے۔
انہوں نے کہا کہ دھرم سماج علی گڑھ کے کالج میں اتنا زیادہ ہندوادی کا نعرہ لگایا جاتا ہے وہاں مسلمان جو بہنیں نقاب پہن کر جاتی تھیں باقاعدہ اس کو اتروایا گیا اور ان کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی گئی، ان کے خلاف ہنگامہ کیا، احتجاج کیا گیا اور ایک لڑکے کو وہاں اس لیے مارا گیا کہ اس کا نام مسلمان جیسا تھا اور وہ ٹوپی لگا کر چلا گیا تھا اس کو مارا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس: محکمہ صحت کی جانب سے 'دستک' پروگرام کا آغاز
اس کو اتنا مارا گیا کہ بعد میں ہم لوگوں کو جا کر ایف آئی آر درج کروانی پڑی، ایس ایس پی نے ایف آئی آر درج کری طلبہ لیڈر کے خلاف تو یہ جو ہو رہا ہے اس پر نہ میڈیا بات کرتی ہے، نہ لوگ بات کرتے ہیں اور نہ ہی خواتین کو بااختیار بنانے کی بات ہوتی ہے۔