ETV Bharat / state

اشفاق اللہ خان، ملک کی آزادی کے لیے پھانسی پر چڑھنے والے مسلم جانباز

author img

By

Published : Dec 19, 2021, 4:58 PM IST

بھارت کی آزادی کی تحریک میں عظیم مجاہد آزادی اشفاق اللہ خان Great Freedom Fighter Ashfaqullah Khan کی قربانیوں کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ 19 دسمبر سنہ 1927 کو محض 27 برس کی عمر میں انہوں نے ملک کی خاطر انگریزی حکومت کے پھانسی کے پھندے کو چوم کر جام شہادت نوش فرمایا تھا۔

عظیم مجاہد آزادی اشفاق اللہ خان
عظیم مجاہد آزادی اشفاق اللہ خان

یوں تو بھارت کی آزادی کی لڑائی میں سینکڑوں لوگوں نے جانیں گنوائی تھیں لیکن جو کام شہید اشفاق اللہ خان نے کیا تھا وہ اپنے آپ میں کافی اہمیت کا حامل ہے۔

اشفاق اللہ خان ملک کی آزادی کے لیے پھانسی پر چڑھنے والے مسلم جانبازوں تھے۔ ان کی پیدائش 22 اکتوبر سنہ 1900 کو اترپردیش کے شاہجہاں پور میں ہوئی تھی۔

اشفاق اللہ خان کے خاندان کے اکثر لوگ برطانوی دور حکومت میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے لیکن اشفاق اللہ کا رجحان کم عمری سے ہی مجاہدین آزادی کے ساتھ مل کر ملک کو آزاد کرانے کی طرف راغب رہا۔

20 برس کی عمر میں جب وہ رام پرساد بسمل سے ملے تو پوری طرح جنگ آزادی میں سرگرم ہوگئے۔

یہی سبب ہے کہ سنہ 1922 میں جب 'چوری چورا کا واقعہ' پیش آیا تو گاندھی جی نے عدم تعاون تحریک سے دستبردار ہونے کا اعلان کردیا۔ اس دوران بہت سارے نوجوان بائیں بازو تحریک سے منسلک ہوگئے۔ ان میں سے ایک اشفاق اللہ خان تھے جنھیں اس بات کا یقین ہوگیا تھا کہ بہت جلد بھارت آزاد ہونے والا ہے اور انہوں نے انقلابیوں کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور رام پرساد بسمل سے دوستی کرلی۔ رام پرساد بسمل بھی ایک انقلابی مزاج کی حامل شخص تھے۔

جشن آزادی کی تقریبات میں آزادی کی لڑائی میں انقلابیوں کے ذریعہ انگریزی حکومت کے ہتھیاروں سے بھری ٹرین کو کاکوری کے مقام پر لوٹنے اور ان انقلابیوں کے ذریعہ ملک کی خاطر پھانسی کے پھندوں کو چومنے کو بھی اہمیت کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے۔

  • لوٹ کے دوران اشفاق اللہ خان نے چھینی اور ہتھوڑے سے تجوری کو تنہا توڑا

اس دوران پُرجوش انقلابیوں میں بے چینی کا عالم پیدا ہوگیا اور رام پرساد بسمل و دوسرے کئی مجاہدین کے ساتھ اشفاق اللہ خان نے بھی ملک کی آزادی کے لیے تشدد کی راہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا لیکن اس کے لیے انہیں اسلحوں کی سخت ضرورت تھی۔ اس کے لیے انہوں نے 9 اگست 1925 کو خفیہ نشست کی اور اگلے ہی دن کاکوری کے مقام پر سرکاری خزانہ لے جارہی سہارنپور-لکھنؤ پیسنجر ٹرین کو لوٹ لیا۔

لوٹ کے دوران اشفاق اللہ خان نے چھینی اور ہتھوڑے سے تجوری کو تنہا توڑا تھا۔ یہ واقعہ تاریخ آزادی ہند میں ایک سنگ میل کی حیثیت سے درج کیا گیا۔ یہ انگریزی حکومت کے سینے پر سانپ لوٹنے جیسا ثابت ہوا۔

اس ڈکیتی کا مقصد بھارتیوں سے انگریزوں نے جو روپیہ، پیسہ دیگر قیمتی چیزیں چھینی تھی، اسے واپس لینا اور ان روپیوں سے ہتھیار، گولا بارود لے کر ان کے خلاف استعمال کرنا تھا۔

اس کارنامہ میں ان کے ساتھ رام پرساد بسمل، راجندر لاہیری، ٹھاکر روشن سنگھ، سچندرا بخشی، چندر شیکھر آزاد، کیشب چکر ویدی، بنواری لال، مُکندی لال، منما گپتا وغیرہ شامل تھے۔

اس کے بعد انگریز حکومت نے ان کے نام پھانسی کے فرمان جاری کردیے۔ فیض آباد میں رام پرساد بسمل، اشفاق اللہ خان، راجندرا لاہیری اور ٹھاکر روشن سنگھ کو پھانسی کی سزا ہوئی۔

کاکوری واقعہ میں عظیم مجاہد آزادی اشفاق اللہ خان کے کردار کو فراموش نہیں کیا جا سکتا بلکہ وہ اس انقلاب کے روح رواں کے طور نظر آتے ہیں۔

انہیں 19 دسمبر 1927 کو تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔ اشفاق اللہ خان اور ان کے رفقا نے بھارت رپبلک ایسوسی ایشن قائم کی اور کرانتی کاری نام سے مشہور ہوئے۔ ایک مرتبہ جب اشفاق اللہ خان انگریزوں کی قید میں تھے تو ان سے ملنے ایک مسلم پولس افسر آیا۔

انہوں نے اشفاق اللہ خان سے کہا کہ تم ایک مسلم ہو اور بسمل ایک ہندو اس کا ساتھ مت دو۔ ہم تمہیں رہا کردیں گے۔ اس بات پر اشفاق اللہ خان نے ایک تاریخی جملہ کہا کہ 'بسمل میرا بھائی ہے اور میں مرتے دم تک اس کا ساتھ دوں گا۔ انگریزوں کی غلامی سے بہتر ہے کہ آزادیٔ ہند کے لیے اپنی جان کی قربانی دے دوں'۔

رام پرساد بِسمل اور اشفاق اللہ خان کی دوستی تحریک آزادی کے دوران ہندو۔مسلم اتحاد کی علامت بن گئی۔

سنہ 1921 میں گاندھی جی نے نان کوآپریشن موومنٹ شروع کی تو اشفاق اللہ خان اور رام پرساد بسمل اس مہم میں پیش پیش رہے۔

اس موومنٹ میں انگریزوں کو ٹیکس ادا نہ کرنے کی اپیل کی گئی تھی۔ دوسری جانب مولانا محمد علی جوہر کی تحریک خلافت کے لیے بھی دونوں نے عوام میں بیداری پیدا کرنے کے لیے بہت کام کیا۔

اشفاق اللہ خان ادبی شغف بھی رکھتے تھے۔ وہ شاعری میں وارثی اور حسرت کا تخلص استعمال کیا کرتے تھے۔

آخری لمحات میں اشفاق اللہ خان کی زبان پر صرف یہی رہا کہ 'میں نے قتل نہیں کیا اور اللہ پر یقین ہے کہ وہ انصاف ضرور کرے گا۔‘ وہ پھانسی کے تختہ تک جاتے ہوئے کلمۂ طیبہ کا ورد بھی کررہے تھے۔

یوں تو بھارت کی آزادی کی لڑائی میں سینکڑوں لوگوں نے جانیں گنوائی تھیں لیکن جو کام شہید اشفاق اللہ خان نے کیا تھا وہ اپنے آپ میں کافی اہمیت کا حامل ہے۔

اشفاق اللہ خان ملک کی آزادی کے لیے پھانسی پر چڑھنے والے مسلم جانبازوں تھے۔ ان کی پیدائش 22 اکتوبر سنہ 1900 کو اترپردیش کے شاہجہاں پور میں ہوئی تھی۔

اشفاق اللہ خان کے خاندان کے اکثر لوگ برطانوی دور حکومت میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے لیکن اشفاق اللہ کا رجحان کم عمری سے ہی مجاہدین آزادی کے ساتھ مل کر ملک کو آزاد کرانے کی طرف راغب رہا۔

20 برس کی عمر میں جب وہ رام پرساد بسمل سے ملے تو پوری طرح جنگ آزادی میں سرگرم ہوگئے۔

یہی سبب ہے کہ سنہ 1922 میں جب 'چوری چورا کا واقعہ' پیش آیا تو گاندھی جی نے عدم تعاون تحریک سے دستبردار ہونے کا اعلان کردیا۔ اس دوران بہت سارے نوجوان بائیں بازو تحریک سے منسلک ہوگئے۔ ان میں سے ایک اشفاق اللہ خان تھے جنھیں اس بات کا یقین ہوگیا تھا کہ بہت جلد بھارت آزاد ہونے والا ہے اور انہوں نے انقلابیوں کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور رام پرساد بسمل سے دوستی کرلی۔ رام پرساد بسمل بھی ایک انقلابی مزاج کی حامل شخص تھے۔

جشن آزادی کی تقریبات میں آزادی کی لڑائی میں انقلابیوں کے ذریعہ انگریزی حکومت کے ہتھیاروں سے بھری ٹرین کو کاکوری کے مقام پر لوٹنے اور ان انقلابیوں کے ذریعہ ملک کی خاطر پھانسی کے پھندوں کو چومنے کو بھی اہمیت کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے۔

  • لوٹ کے دوران اشفاق اللہ خان نے چھینی اور ہتھوڑے سے تجوری کو تنہا توڑا

اس دوران پُرجوش انقلابیوں میں بے چینی کا عالم پیدا ہوگیا اور رام پرساد بسمل و دوسرے کئی مجاہدین کے ساتھ اشفاق اللہ خان نے بھی ملک کی آزادی کے لیے تشدد کی راہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا لیکن اس کے لیے انہیں اسلحوں کی سخت ضرورت تھی۔ اس کے لیے انہوں نے 9 اگست 1925 کو خفیہ نشست کی اور اگلے ہی دن کاکوری کے مقام پر سرکاری خزانہ لے جارہی سہارنپور-لکھنؤ پیسنجر ٹرین کو لوٹ لیا۔

لوٹ کے دوران اشفاق اللہ خان نے چھینی اور ہتھوڑے سے تجوری کو تنہا توڑا تھا۔ یہ واقعہ تاریخ آزادی ہند میں ایک سنگ میل کی حیثیت سے درج کیا گیا۔ یہ انگریزی حکومت کے سینے پر سانپ لوٹنے جیسا ثابت ہوا۔

اس ڈکیتی کا مقصد بھارتیوں سے انگریزوں نے جو روپیہ، پیسہ دیگر قیمتی چیزیں چھینی تھی، اسے واپس لینا اور ان روپیوں سے ہتھیار، گولا بارود لے کر ان کے خلاف استعمال کرنا تھا۔

اس کارنامہ میں ان کے ساتھ رام پرساد بسمل، راجندر لاہیری، ٹھاکر روشن سنگھ، سچندرا بخشی، چندر شیکھر آزاد، کیشب چکر ویدی، بنواری لال، مُکندی لال، منما گپتا وغیرہ شامل تھے۔

اس کے بعد انگریز حکومت نے ان کے نام پھانسی کے فرمان جاری کردیے۔ فیض آباد میں رام پرساد بسمل، اشفاق اللہ خان، راجندرا لاہیری اور ٹھاکر روشن سنگھ کو پھانسی کی سزا ہوئی۔

کاکوری واقعہ میں عظیم مجاہد آزادی اشفاق اللہ خان کے کردار کو فراموش نہیں کیا جا سکتا بلکہ وہ اس انقلاب کے روح رواں کے طور نظر آتے ہیں۔

انہیں 19 دسمبر 1927 کو تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔ اشفاق اللہ خان اور ان کے رفقا نے بھارت رپبلک ایسوسی ایشن قائم کی اور کرانتی کاری نام سے مشہور ہوئے۔ ایک مرتبہ جب اشفاق اللہ خان انگریزوں کی قید میں تھے تو ان سے ملنے ایک مسلم پولس افسر آیا۔

انہوں نے اشفاق اللہ خان سے کہا کہ تم ایک مسلم ہو اور بسمل ایک ہندو اس کا ساتھ مت دو۔ ہم تمہیں رہا کردیں گے۔ اس بات پر اشفاق اللہ خان نے ایک تاریخی جملہ کہا کہ 'بسمل میرا بھائی ہے اور میں مرتے دم تک اس کا ساتھ دوں گا۔ انگریزوں کی غلامی سے بہتر ہے کہ آزادیٔ ہند کے لیے اپنی جان کی قربانی دے دوں'۔

رام پرساد بِسمل اور اشفاق اللہ خان کی دوستی تحریک آزادی کے دوران ہندو۔مسلم اتحاد کی علامت بن گئی۔

سنہ 1921 میں گاندھی جی نے نان کوآپریشن موومنٹ شروع کی تو اشفاق اللہ خان اور رام پرساد بسمل اس مہم میں پیش پیش رہے۔

اس موومنٹ میں انگریزوں کو ٹیکس ادا نہ کرنے کی اپیل کی گئی تھی۔ دوسری جانب مولانا محمد علی جوہر کی تحریک خلافت کے لیے بھی دونوں نے عوام میں بیداری پیدا کرنے کے لیے بہت کام کیا۔

اشفاق اللہ خان ادبی شغف بھی رکھتے تھے۔ وہ شاعری میں وارثی اور حسرت کا تخلص استعمال کیا کرتے تھے۔

آخری لمحات میں اشفاق اللہ خان کی زبان پر صرف یہی رہا کہ 'میں نے قتل نہیں کیا اور اللہ پر یقین ہے کہ وہ انصاف ضرور کرے گا۔‘ وہ پھانسی کے تختہ تک جاتے ہوئے کلمۂ طیبہ کا ورد بھی کررہے تھے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.