ETV Bharat / state

گرفتار شدہ افراد کا اے ایم یو سے کوئی تعلق نہیں: یونیورسٹی پراکٹر - ای ٹی وی بھارت اردو خبر

علیگڑھ مسلم یونیورسٹی انتطامیہ نے کہا ہے کہ گرفتار شدہ افراد کا اے ایم یو سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں یونیورسٹی پراکٹر محمد وسیم علی نے کہا کہ مختلف میڈیا میں جو خبریں سرخیاں بنی ہوئی ہیں وہ من گھڑت خبریں ہیں۔ Arrested persons not related to AMU University Proctor

گرفتار شدہ افراد کا اے ایم یو سے کوئی تعلق نہیں: یونیورسٹی پراکٹر
گرفتار شدہ افراد کا اے ایم یو سے کوئی تعلق نہیں: یونیورسٹی پراکٹر
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Nov 14, 2023, 5:24 PM IST

گرفتار شدہ افراد کا اے ایم یو سے کوئی تعلق نہیں: یونیورسٹی پراکٹر

علیگڑھ: مختلف میڈیا میں یہ خبریں سرخیوں بنی ہوئی ہیں کہ اے ٹی ایس کے ذریعہ گرفتار شدہ چار مبینہ کارکن کا علیگڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) سے تعلق ہے، اس بات کو لے کر یونیورسٹی انتظامیہ بھی تعجب میں ہے کہ انہیں اس کی کوئی اطلاع ہی نہیں ہے، یونیورسٹی پراکٹر نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو میں بتایا 'گرفتار شدہ افراد کا اے ایم یو سے کوئی تعلق نہیں ہے، میڈیا میں چلائی جا رہیں خبریں غلط ہیں، یہ مکمل طور پر fabricated من گھڑت خبریں چلائی گئیں ہیں ایسا کچھ نہیں ہے'۔ کچھ روز قبل انسداد دہشت گردی سکواڈ (اے ٹی ایس) کے ذریعہ مبینہ چار کارکن کو مختلف مقامات سے گرفتار کیا تھا جس کے بعد سے ہی مختلف میڈیا میں یہ خبریں سرخیوں بنی اور میڈیا کے ذریعہ طرح طرح کی خبریں اس سے متعلق منظر عام پر آرہی ہیں کہ گرفتار شدہ افراد میں کچھ کا تعلق عالمی شہرت یافتہ علیگڈھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) سے ہے اور وہ وہاں پر جہاد کی نرسری چلا رہے تھے جس کی سچائی اور مزید تفصیلات جاننے کے لیے ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے یونیورسٹی پراکٹر محمد وسیم علی سے رابطہ قائم کیا تو انہوں نے خصوصی گفتگو میں بتایا "میڈیا کے ذریعہ انہیں معلوم چلا ہے کہ کچھ افراد کو اے ٹی ایس نے گرفتار کیا ہے لیکن انہوں نے سوال کا جواب دیتے ہوئے گرفتار شدہ افراد کا اے ایم یو سے تعلق کو سرے سے انکار کردیا۔

یہ بھی پڑھیں:

یوپی میں حملہ کی تیاری تھی، چھتیس گڑھ سے عسکریت پسند کو کیا گیا گرفتار

اس سلسلہ میں اے ایم یو پراکٹر نے مزید کہا کہ ان کے پاس جو بھی خبریں آرہی ہیں وہ پرنٹ میڈیا اور ڈجیٹل میڈیا کے ذریعہ ہی آ رہی ہیں اور یہ بتایا جارہا ہے اور انہوں نے پرنٹ میڈیا میں پڑھا ہے کہ اس میں چار سے چھ افراد کو اے ٹی ایس نے گرفتار کیا ہے اور ان کے نام بھی اخباروں میں آرہے ہیں اور کئی نام سامنے آئے ہیں اور ان میں سے زیادہ تر لوگوں کو مسلم یونیورسٹی سے جوڑ کر دیکھا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا اس حوالے سے واضح کر دوں کہ اب تک کہ مجھ سے کسی بھی ایجنسی کے کسی فرد نے کسی آفیسر نے مجھے یہ ا طلاع نہیں دی ہے کہ کوئی یونیورسٹی کا کوئی طالب علم کسی بھی چارج میں گرفتار کیا گیا ہے، اب جس کے پاس جو بھی خبر ارہی ہے وہ اسی خبر کو اگے بڑھا دیتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ وہ علی گڑھ یونیورسٹی کا طالب علم ہے، لیکن اب تک نہ تو ہم سے کسی طالب علم نے رابطہ کیا کہ کوئی ان کا ساتھی کلاس فیلو یا روم پارٹر گرفتار ہوا ہے یا حراست میں لیا گیا ہے اور نہ ہی کسی طالب علم نے رابطہ کیا ہے کہ اس کو پولیس یا کسی ایجنسی نے گرفتار کیا یا حراست میں لیا ہے، اس لیے یہ ساری چیزیں وہ ان آفیشیل میڈیا میں چل رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم تب تک کوئی بات نہیں کر سکتے ہیں، جب تک کہ ہمارے پاس کوئی آفیشل اطلاع نہ آئے کہ اے ایم کے فلاں طالب علم کو اس اس الزام میں حراست میں لیا گیا ہے یا گرفتار کیا ہے گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرے دست حالات یہ ہیں کہ میرے پاس کوئی اطلاع آفیشل نہیں کہ یونیورسٹی کا کوئی بھی طالب علم گرفتار ہوا ہے یا نہیں ہوا ہے۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس میڈیا کے تعلق سے ایک شخص نے رابطہ کیا تھا کہ کوئی پروفیسر ہے جس سے پولیس پوچھ تاچھ کر رہی ہے، لیکن یہ اطلاع بھی مکمل طور پر غلط تھی، انہوں نے زور دے کر کہا کہ ایسا نہیں ہے، یونیورسٹی کے کسی بھی ٹیچر، نان ٹیچنگ اسٹاف میں سے کسی کو کسی ایجنسی نے گرفتار کیا ہوا۔ یا اس سے کوئی تفتیش کیا ہوا ہے یہ مکمل طور پر fabricated من گھڑت خبریں چلائی گئیں ہیں ایسا کچھ نہیں ہے۔ ایسا کچھ نہیں ہے کہ ہماری یونیورسٹی کے کسی بھی ٹیچر یا پروفیسر کے ساتھ ایسا ہوا، جو لوگ ایسا سمجھ رہے ہیں وہ من گھڑت ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

یوپی اے ٹی ایس نے چار مشتبہ دہشت گردوں کو گرفتار کیا

واضح رہے اے ٹی ایس کے ذریعہ گرفتار شدہ افراد اور ان کا اے ایم یو سے تعلق سے متعلق سوشل اور میڈیا پر خبریں سرخیوں میں ہیں۔ اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس پورے معاملے پر ابھی تک اے ایم یو انتظامیہ خاموش ہے، سات ہی اے ایم یو انتظامیہ پر الزام بھی لگایا جا رہ ہے کہ پکڑے جانے والے طلبہ کے خلاف نہ تو کوئی کارروائی کر ہی ہے اور نہ ہی اے ایم یو میں سرگرم طلبہ کی اس تنظیم کے خلاف کوئی کارروائی کی جارہی ہے۔ ایسے میں یہ سوال مکمل طور پر بے معنی ہے کہ اے ایم یو انتظامیہ کیوں نہیں کرررواہی کر رہی ہے۔ اس سلسلہ میں دعویٰ کیا جا ر اہے کہ اس کی شروعات جھارکھنڈ کے لوہردگا سے اے ایم یو کے ایک گریجویٹ طالب علم کی گرفتاری سے ہوئی، اس کے بعد اس کا ساتھی مہاراج گنج سے پکڑا گیا۔

وہیں اس سلسلہ میں کہا جا رہا ہے کہ مبینہ کارکنان ایم اے یو میں تعلیم حاصل کرنے کے علاوہ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تنظیم سے بھی وابستہ تھے۔ وہ مخالفت تنظیموں کے اجلاسوں کے ذریعہ ایک دوسرے سے رابطہ کرکے نئے لوگوں کو داعش سے جوڑنے کا کام بھی کررہے تھے، اس کے لیے وہ ملک اور صوبہ کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کے بڑے واقعات کو انجام دینے کے ایکشن پلان پر بھی کام کر رہے تھے اور اس کے لیے وہ نوجوانوں کی ٹیم بھی تیار کر رہے تھے۔ علی گڑھ کے علاوہ صوبہ کے کئی شہروں میں ان کا نیٹ ورک پھیلا ہوا ہے۔ وہیں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ عین ممکن ہے کہ اس معاملے میں جن لوگوں کے نام ہیں ان کی تلاش کی جا رہی ہے، اس کے علاوہ ان سے جڑے اور ان سے رابطے میں رہنے والے دیگر افراد کی بھی تلاش کی جارہی ہے۔ مستقبل میں مزید گرفتاریاں ہو سکتی ہیں۔

ایسے میں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اے ایم یو کی سطح پر ابھی تک ان لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی جو اے ایم یو کے طلباء ہیں اور انہیں مسلسل گرفتار کیا جا رہا ہے اور ہر بار کی طرح اے ایم یو بھی یہی کہتی ہے کہ اب تک انہیں کوئی تحریری اطلاع نہیں ملی ہے۔ واضح رہے کچھ روز قبل اے ایم یو کو بدنام کرنے کی غرض سے اتل اگروال نامی ایک یوٹیوبر نے غیر اخلاقی اور نازیبا الفاظ کا استعمال کیا تھا جس کے خلاف طلباء نے کارگزار وائس کے نام ایک میمورنڈم یونیورسٹی پراکٹر کو دیا تھا جس میں یوٹیوبر کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

گرفتار شدہ افراد کا اے ایم یو سے کوئی تعلق نہیں: یونیورسٹی پراکٹر

علیگڑھ: مختلف میڈیا میں یہ خبریں سرخیوں بنی ہوئی ہیں کہ اے ٹی ایس کے ذریعہ گرفتار شدہ چار مبینہ کارکن کا علیگڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) سے تعلق ہے، اس بات کو لے کر یونیورسٹی انتظامیہ بھی تعجب میں ہے کہ انہیں اس کی کوئی اطلاع ہی نہیں ہے، یونیورسٹی پراکٹر نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو میں بتایا 'گرفتار شدہ افراد کا اے ایم یو سے کوئی تعلق نہیں ہے، میڈیا میں چلائی جا رہیں خبریں غلط ہیں، یہ مکمل طور پر fabricated من گھڑت خبریں چلائی گئیں ہیں ایسا کچھ نہیں ہے'۔ کچھ روز قبل انسداد دہشت گردی سکواڈ (اے ٹی ایس) کے ذریعہ مبینہ چار کارکن کو مختلف مقامات سے گرفتار کیا تھا جس کے بعد سے ہی مختلف میڈیا میں یہ خبریں سرخیوں بنی اور میڈیا کے ذریعہ طرح طرح کی خبریں اس سے متعلق منظر عام پر آرہی ہیں کہ گرفتار شدہ افراد میں کچھ کا تعلق عالمی شہرت یافتہ علیگڈھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) سے ہے اور وہ وہاں پر جہاد کی نرسری چلا رہے تھے جس کی سچائی اور مزید تفصیلات جاننے کے لیے ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے یونیورسٹی پراکٹر محمد وسیم علی سے رابطہ قائم کیا تو انہوں نے خصوصی گفتگو میں بتایا "میڈیا کے ذریعہ انہیں معلوم چلا ہے کہ کچھ افراد کو اے ٹی ایس نے گرفتار کیا ہے لیکن انہوں نے سوال کا جواب دیتے ہوئے گرفتار شدہ افراد کا اے ایم یو سے تعلق کو سرے سے انکار کردیا۔

یہ بھی پڑھیں:

یوپی میں حملہ کی تیاری تھی، چھتیس گڑھ سے عسکریت پسند کو کیا گیا گرفتار

اس سلسلہ میں اے ایم یو پراکٹر نے مزید کہا کہ ان کے پاس جو بھی خبریں آرہی ہیں وہ پرنٹ میڈیا اور ڈجیٹل میڈیا کے ذریعہ ہی آ رہی ہیں اور یہ بتایا جارہا ہے اور انہوں نے پرنٹ میڈیا میں پڑھا ہے کہ اس میں چار سے چھ افراد کو اے ٹی ایس نے گرفتار کیا ہے اور ان کے نام بھی اخباروں میں آرہے ہیں اور کئی نام سامنے آئے ہیں اور ان میں سے زیادہ تر لوگوں کو مسلم یونیورسٹی سے جوڑ کر دیکھا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا اس حوالے سے واضح کر دوں کہ اب تک کہ مجھ سے کسی بھی ایجنسی کے کسی فرد نے کسی آفیسر نے مجھے یہ ا طلاع نہیں دی ہے کہ کوئی یونیورسٹی کا کوئی طالب علم کسی بھی چارج میں گرفتار کیا گیا ہے، اب جس کے پاس جو بھی خبر ارہی ہے وہ اسی خبر کو اگے بڑھا دیتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ وہ علی گڑھ یونیورسٹی کا طالب علم ہے، لیکن اب تک نہ تو ہم سے کسی طالب علم نے رابطہ کیا کہ کوئی ان کا ساتھی کلاس فیلو یا روم پارٹر گرفتار ہوا ہے یا حراست میں لیا گیا ہے اور نہ ہی کسی طالب علم نے رابطہ کیا ہے کہ اس کو پولیس یا کسی ایجنسی نے گرفتار کیا یا حراست میں لیا ہے، اس لیے یہ ساری چیزیں وہ ان آفیشیل میڈیا میں چل رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم تب تک کوئی بات نہیں کر سکتے ہیں، جب تک کہ ہمارے پاس کوئی آفیشل اطلاع نہ آئے کہ اے ایم کے فلاں طالب علم کو اس اس الزام میں حراست میں لیا گیا ہے یا گرفتار کیا ہے گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرے دست حالات یہ ہیں کہ میرے پاس کوئی اطلاع آفیشل نہیں کہ یونیورسٹی کا کوئی بھی طالب علم گرفتار ہوا ہے یا نہیں ہوا ہے۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس میڈیا کے تعلق سے ایک شخص نے رابطہ کیا تھا کہ کوئی پروفیسر ہے جس سے پولیس پوچھ تاچھ کر رہی ہے، لیکن یہ اطلاع بھی مکمل طور پر غلط تھی، انہوں نے زور دے کر کہا کہ ایسا نہیں ہے، یونیورسٹی کے کسی بھی ٹیچر، نان ٹیچنگ اسٹاف میں سے کسی کو کسی ایجنسی نے گرفتار کیا ہوا۔ یا اس سے کوئی تفتیش کیا ہوا ہے یہ مکمل طور پر fabricated من گھڑت خبریں چلائی گئیں ہیں ایسا کچھ نہیں ہے۔ ایسا کچھ نہیں ہے کہ ہماری یونیورسٹی کے کسی بھی ٹیچر یا پروفیسر کے ساتھ ایسا ہوا، جو لوگ ایسا سمجھ رہے ہیں وہ من گھڑت ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

یوپی اے ٹی ایس نے چار مشتبہ دہشت گردوں کو گرفتار کیا

واضح رہے اے ٹی ایس کے ذریعہ گرفتار شدہ افراد اور ان کا اے ایم یو سے تعلق سے متعلق سوشل اور میڈیا پر خبریں سرخیوں میں ہیں۔ اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس پورے معاملے پر ابھی تک اے ایم یو انتظامیہ خاموش ہے، سات ہی اے ایم یو انتظامیہ پر الزام بھی لگایا جا رہ ہے کہ پکڑے جانے والے طلبہ کے خلاف نہ تو کوئی کارروائی کر ہی ہے اور نہ ہی اے ایم یو میں سرگرم طلبہ کی اس تنظیم کے خلاف کوئی کارروائی کی جارہی ہے۔ ایسے میں یہ سوال مکمل طور پر بے معنی ہے کہ اے ایم یو انتظامیہ کیوں نہیں کرررواہی کر رہی ہے۔ اس سلسلہ میں دعویٰ کیا جا ر اہے کہ اس کی شروعات جھارکھنڈ کے لوہردگا سے اے ایم یو کے ایک گریجویٹ طالب علم کی گرفتاری سے ہوئی، اس کے بعد اس کا ساتھی مہاراج گنج سے پکڑا گیا۔

وہیں اس سلسلہ میں کہا جا رہا ہے کہ مبینہ کارکنان ایم اے یو میں تعلیم حاصل کرنے کے علاوہ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تنظیم سے بھی وابستہ تھے۔ وہ مخالفت تنظیموں کے اجلاسوں کے ذریعہ ایک دوسرے سے رابطہ کرکے نئے لوگوں کو داعش سے جوڑنے کا کام بھی کررہے تھے، اس کے لیے وہ ملک اور صوبہ کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کے بڑے واقعات کو انجام دینے کے ایکشن پلان پر بھی کام کر رہے تھے اور اس کے لیے وہ نوجوانوں کی ٹیم بھی تیار کر رہے تھے۔ علی گڑھ کے علاوہ صوبہ کے کئی شہروں میں ان کا نیٹ ورک پھیلا ہوا ہے۔ وہیں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ عین ممکن ہے کہ اس معاملے میں جن لوگوں کے نام ہیں ان کی تلاش کی جا رہی ہے، اس کے علاوہ ان سے جڑے اور ان سے رابطے میں رہنے والے دیگر افراد کی بھی تلاش کی جارہی ہے۔ مستقبل میں مزید گرفتاریاں ہو سکتی ہیں۔

ایسے میں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اے ایم یو کی سطح پر ابھی تک ان لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی جو اے ایم یو کے طلباء ہیں اور انہیں مسلسل گرفتار کیا جا رہا ہے اور ہر بار کی طرح اے ایم یو بھی یہی کہتی ہے کہ اب تک انہیں کوئی تحریری اطلاع نہیں ملی ہے۔ واضح رہے کچھ روز قبل اے ایم یو کو بدنام کرنے کی غرض سے اتل اگروال نامی ایک یوٹیوبر نے غیر اخلاقی اور نازیبا الفاظ کا استعمال کیا تھا جس کے خلاف طلباء نے کارگزار وائس کے نام ایک میمورنڈم یونیورسٹی پراکٹر کو دیا تھا جس میں یوٹیوبر کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.