لکھنؤ: لکھنؤ کے ایک بچہ کی جان بچانے کے لیے 26 کروڑ کے انجیکشن کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بچہ کے اہل خانہ پریشان ہیں۔ اس سلسلہ میں متاثر بچہ کے والد فضل قدوائی نے بتایا کہ آن لائن ویب سائٹ کے ذریعہ بھی عوامی فنڈ اکٹھا کر رہے ہیں اور اس کے علاوہ حکومت سے بھی اپیل کی ہے۔ سیاسی رہنماؤں سے بھی بات چیت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرا ننہا معصوم پانچ سال کے بچہ کو اگر انجیکشن مل جائے گا تو اس کی جان بچ جائے گی۔ ہم نہیں چاہتے ہیں کہ ہمارے بچہ کی جان انجیکشن نہ لگنے کی وجہ سے جائے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ اس کی قیمت بہت زیادہ ہے لیکن حکومت ہند اور عوام اگر اس میں تعاون کریں تو امید ہے کہ انجیکشن مل سکتا ہے اور ہمارے بچہ کی جان بچ سکتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ بیماری شاذ و نادر ہوتی ہے لیکن انتہائی خطرناک ہوتی ہے۔
ان کی اہلیہ کلثوم قدوائی نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ظاہر ہے کہ ایک ماں کا اپنے بچہ سے کس قدر جذباتی لگاؤ ہوتا ہے، وہ اپنے بچہ کے لیے سب کچھ قربان کر دینا چاہتی ہے۔ لیکن اس انجیکشن کی قیمت اس قدر زیادہ ہے کہ ہم سب کچھ قربان کر کے بھی اسے حاصل نہیں کر سکتے۔ حکومت سے ہم اپیل کر رہے ہیں کہ حکومت ہمارے بچہ کی جان بچانے میں مدد کرے۔ عوام سے بھی اپیل کر رہے ہیں کہ عوام تعاون کرے تاکہ اس ننھے بچہ کی جان بچ سکے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے ہم نے پی جی آئی اسپتال میں ڈاکٹروں کو دکھایا تھا اس کے بعد مجھے مشورہ دیا گیا کہ دہلی کے ایمز میں ڈاکٹر کو دکھایا جائے جہاں پر ان لوگوں نے بھی بتایا کہ یہ بچہ ڈی ایم ڈی مرض کا شکار ہے اور آہستہ آہستہ اس کے مسلز مردہ ہوتے چلے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ڈاکٹروں نے بتایا ہے کہ تقریباً 10 برس میں یہ پورا جسم مردہ ہو جائے گا یہ بیماری تقریبا 10 سے 12 برس کا وقت لیتی ہے اور رفتہ رفتہ یہ انسان کو ناکام بنا دیتی ہے اس بیماری سے تحفظ کے لیے ابھی جلد ہی یو ایس اے میں انجیکشن دریافت ہوا جو اب دبئی میں دستیاب ہے لیکن اس کی قیمت زیادہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم عوام اور حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ہماری مدد کریں تاکہ ہمارے ننھے بچہ کی جان بچ سکے۔