طلاق ثلاثہ بل پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ دینیات کے اسسٹنٹ پروفیسر ریحان اختر کا کہنا ہے کہ 'تین طلاق بل مرد اور عورت کسی کے بھی حق میں فائدہ مند نہیں ہے۔ طلاق ثلاثہ بل روز اول سے ہی عائلی مسئلہ ہے جس کے لیے پرسنل لاء ہے لہذا اس میں سرکار کو کسی بھی طرح کی مداخلت نہیں کرنا چاہیے تھا۔'
انہوں نے کہا کہ 'طلاق ثلاثہ پر قانون لانا ضروری نہیں تھا۔ اس بل میں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ طلاق دینے کے بعد جب مرد تین برس جیل میں رہے گا تو ان تین برسوں میں خواتین کی دیکھ بھال اور کھانے پینے کا خرچ کون دے گا۔ کیا وہ سرکار مہیا کرائے گی۔'
طلاق ثلاثہ پر شعبۂ دینیات کی طالبات کا کیا کہنا ہے؟
طالبہ نبی آ رہا کا کہنا ہے کہ 'طلاق ثلاثہ بل سے فائدہ نہیں ہونے والا ہے۔ موجودہ حکومت کو طلاق ثلاثہ پر مداخلت کرنے کی ضرورت نہیں تھی، اگر مسلمانوں کی حکومت کو فکر ہے تو طلاق ثلاثہ کے علاوہ مسلمانوں کے کئی مسائل ہیں، جیسے مسلم بچیوں کی تعلیم، ان کی حفاظت اور ماب لنچنگ وغیرہ۔ حکومت کو ان مسائل کو ترجیحی بنیاد پر حل کرنا چاہیے۔'
دوسری طالبہ ہُما ناز کا کہنا ہے کہ 'ملک میں اپنے اپنے مذہب پر عمل کرنے کا سب کو حق حاصل ہے۔ کسی کو بھی کسی کے مذہب میں مداخلت کرنے کی اجازت نہیں ہے اور جہاں تک تین طلاق بل کا سوال ہے اس سے خاتون کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔'