ریاست اترپردیش میں واقع علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی ایک اہم میٹنگ میں بابری مسجد پر سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے پیش نظر کی گئی، جس میں فیصلے پر غور کیا گیا ہے۔
اس فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ قانونی اور آئینی حق استعمال کرتے ہوئے اس فیصلے پر نظرثانی کی عرضی سپریم کورٹ میں داخل کی جائے گی۔
اسی ضمن میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) اور طلبہ یونین نے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے فیصلے پر نظر ثانی کی عرضی داخل کرنے کا خیرمقدم کیا ہے۔
اے ایم یو طلبہ یونین کے سابق صدر سلمان امتیاز نے کل آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر کو خط بھی لکھا تھا، جس میں نظرثانی کی عرضی داخل کرنے کا مشورہ دیا تھا۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی شعبہ دینیات کے سابق صدر پروفیسر مفتی زاہد صاحب نے خصوصی گفتگو میں بتایا نظرثانی عرضی داخل کرنا زیادہ مناسب ہے، البتہ ہماری طرف سے بھی اور دوسرے برادران وطن سے بھی اور حکومت کی طرف سے بھی یہ کوشش ہونی چاہیے ملک کا ماحول سازگار رہے۔
ایک سرسری نظر بابری مسجد فیصلے پر،
1۔ سنہ 1528 میں کسی مندر کو توڑ کر مسجد کی تعمیر نہیں ہوئی۔
2۔ 22- 23 دسمبر کی درمیان رات کو جو مورتی مسجد کے اندر رکھی گئی تھی اور عشا تک نماز ہوئی تھی اس کو بھی تسلیم کیا ہے، اور کہا یہ غیرقانونی طور پر رکھی گئی۔
3۔ مسجد کو شہید کرنا، سوال یہ پیدا ہوتا ہے مسجد کو شہید نہیں کیا ہوتا تو یہ فیصلہ تو نہیں ہوسکتا تھا۔ فیصلہ تو یہی ہوتا مسجد باقی رہے گی، فیصلہ تو مسجد شہید کردینے کی وجہ سے آیا ہے اس لیے اس فیصلے سے انصاف پسند لوگوں کو اعتراض ہے۔
شعبہ دینیات کے اسسٹنٹ پروفیسر ریحان اختر نے کہا فیصلے آنے سے پہلے تمام لوگوں نے کہا تھا ہم فیصلے کو تسلیم اور اس کی عزت کریں گے۔
ملک کے آئین اور سپریم کورٹ نے کہا ہے اگر آپ فیصلے سے مطمئن نہیں تو آپ نظر ثانی کی عرضی داخل کرسکتے ہیں وہ ان کا آئینی حق ہے۔
اے ایم یو طلبہ یونین کے سابق صدر سلمان امتیاز نے کہا آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورد کو ہم نے خط لکھا تھا نظرثانی عرضی داخل کرنے کے لیے، کیوں کہ جو فیصلہ سپریم کورٹ نے دیا ہے ہم اس کے فیصلے کی عزت کرتے ہے، لیکن وہ سچائی کی بنیاد پر نہیں دیا گیا ہے۔ کیوں کہ تمام چیزیں مسلمانوں کے حق میں تھیں، تو فیصلہ آخر مسجد کے خلاف کیوں؟