ETV Bharat / state

اے ایم یو طلبہ یونین کا فیصلے پر نظر ثانی کا خیرمقدم

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی طلبہ یونین نے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے فیصلے نظر ثانی پر عرضی داخل کرنے کی موافقت کی ہے۔

اے ایم یو طلبہ یونین کا فیصلے پر نظر ثانی کا خیرمقدم
author img

By

Published : Nov 18, 2019, 10:11 PM IST

ریاست اترپردیش میں واقع علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی ایک اہم میٹنگ میں بابری مسجد پر سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے پیش نظر کی گئی، جس میں فیصلے پر غور کیا گیا ہے۔

اس فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ قانونی اور آئینی حق استعمال کرتے ہوئے اس فیصلے پر نظرثانی کی عرضی سپریم کورٹ میں داخل کی جائے گی۔

اے ایم یو طلبہ یونین کا فیصلے پر نظر ثانی کا خیرمقدم

اسی ضمن میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) اور طلبہ یونین نے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے فیصلے پر نظر ثانی کی عرضی داخل کرنے کا خیرمقدم کیا ہے۔

اے ایم یو طلبہ یونین کے سابق صدر سلمان امتیاز نے کل آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر کو خط بھی لکھا تھا، جس میں نظرثانی کی عرضی داخل کرنے کا مشورہ دیا تھا۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی شعبہ دینیات کے سابق صدر پروفیسر مفتی زاہد صاحب نے خصوصی گفتگو میں بتایا نظرثانی عرضی داخل کرنا زیادہ مناسب ہے، البتہ ہماری طرف سے بھی اور دوسرے برادران وطن سے بھی اور حکومت کی طرف سے بھی یہ کوشش ہونی چاہیے ملک کا ماحول سازگار رہے۔

ایک سرسری نظر بابری مسجد فیصلے پر،

1۔ سنہ 1528 میں کسی مندر کو توڑ کر مسجد کی تعمیر نہیں ہوئی۔

2۔ 22- 23 دسمبر کی درمیان رات کو جو مورتی مسجد کے اندر رکھی گئی تھی اور عشا تک نماز ہوئی تھی اس کو بھی تسلیم کیا ہے، اور کہا یہ غیرقانونی طور پر رکھی گئی۔

3۔ مسجد کو شہید کرنا، سوال یہ پیدا ہوتا ہے مسجد کو شہید نہیں کیا ہوتا تو یہ فیصلہ تو نہیں ہوسکتا تھا۔ فیصلہ تو یہی ہوتا مسجد باقی رہے گی، فیصلہ تو مسجد شہید کردینے کی وجہ سے آیا ہے اس لیے اس فیصلے سے انصاف پسند لوگوں کو اعتراض ہے۔

شعبہ دینیات کے اسسٹنٹ پروفیسر ریحان اختر نے کہا فیصلے آنے سے پہلے تمام لوگوں نے کہا تھا ہم فیصلے کو تسلیم اور اس کی عزت کریں گے۔

ملک کے آئین اور سپریم کورٹ نے کہا ہے اگر آپ فیصلے سے مطمئن نہیں تو آپ نظر ثانی کی عرضی داخل کرسکتے ہیں وہ ان کا آئینی حق ہے۔

اے ایم یو طلبہ یونین کے سابق صدر سلمان امتیاز نے کہا آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورد کو ہم نے خط لکھا تھا نظرثانی عرضی داخل کرنے کے لیے، کیوں کہ جو فیصلہ سپریم کورٹ نے دیا ہے ہم اس کے فیصلے کی عزت کرتے ہے، لیکن وہ سچائی کی بنیاد پر نہیں دیا گیا ہے۔ کیوں کہ تمام چیزیں مسلمانوں کے حق میں تھیں، تو فیصلہ آخر مسجد کے خلاف کیوں؟

ریاست اترپردیش میں واقع علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی ایک اہم میٹنگ میں بابری مسجد پر سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے پیش نظر کی گئی، جس میں فیصلے پر غور کیا گیا ہے۔

اس فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ قانونی اور آئینی حق استعمال کرتے ہوئے اس فیصلے پر نظرثانی کی عرضی سپریم کورٹ میں داخل کی جائے گی۔

اے ایم یو طلبہ یونین کا فیصلے پر نظر ثانی کا خیرمقدم

اسی ضمن میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) اور طلبہ یونین نے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے فیصلے پر نظر ثانی کی عرضی داخل کرنے کا خیرمقدم کیا ہے۔

اے ایم یو طلبہ یونین کے سابق صدر سلمان امتیاز نے کل آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر کو خط بھی لکھا تھا، جس میں نظرثانی کی عرضی داخل کرنے کا مشورہ دیا تھا۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی شعبہ دینیات کے سابق صدر پروفیسر مفتی زاہد صاحب نے خصوصی گفتگو میں بتایا نظرثانی عرضی داخل کرنا زیادہ مناسب ہے، البتہ ہماری طرف سے بھی اور دوسرے برادران وطن سے بھی اور حکومت کی طرف سے بھی یہ کوشش ہونی چاہیے ملک کا ماحول سازگار رہے۔

ایک سرسری نظر بابری مسجد فیصلے پر،

1۔ سنہ 1528 میں کسی مندر کو توڑ کر مسجد کی تعمیر نہیں ہوئی۔

2۔ 22- 23 دسمبر کی درمیان رات کو جو مورتی مسجد کے اندر رکھی گئی تھی اور عشا تک نماز ہوئی تھی اس کو بھی تسلیم کیا ہے، اور کہا یہ غیرقانونی طور پر رکھی گئی۔

3۔ مسجد کو شہید کرنا، سوال یہ پیدا ہوتا ہے مسجد کو شہید نہیں کیا ہوتا تو یہ فیصلہ تو نہیں ہوسکتا تھا۔ فیصلہ تو یہی ہوتا مسجد باقی رہے گی، فیصلہ تو مسجد شہید کردینے کی وجہ سے آیا ہے اس لیے اس فیصلے سے انصاف پسند لوگوں کو اعتراض ہے۔

شعبہ دینیات کے اسسٹنٹ پروفیسر ریحان اختر نے کہا فیصلے آنے سے پہلے تمام لوگوں نے کہا تھا ہم فیصلے کو تسلیم اور اس کی عزت کریں گے۔

ملک کے آئین اور سپریم کورٹ نے کہا ہے اگر آپ فیصلے سے مطمئن نہیں تو آپ نظر ثانی کی عرضی داخل کرسکتے ہیں وہ ان کا آئینی حق ہے۔

اے ایم یو طلبہ یونین کے سابق صدر سلمان امتیاز نے کہا آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورد کو ہم نے خط لکھا تھا نظرثانی عرضی داخل کرنے کے لیے، کیوں کہ جو فیصلہ سپریم کورٹ نے دیا ہے ہم اس کے فیصلے کی عزت کرتے ہے، لیکن وہ سچائی کی بنیاد پر نہیں دیا گیا ہے۔ کیوں کہ تمام چیزیں مسلمانوں کے حق میں تھیں، تو فیصلہ آخر مسجد کے خلاف کیوں؟

Intro:علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور طلبہ یونین آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے فیصلے نظر ثانی کے عرضی داخل کرنے کے ساتھ.


Body:بابری مسجد معاملہ۔
خصوصی رپورٹ۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی اہم میٹنگ میں بابری مسجد سے متعلق سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کی تفصیلات پر غور کیا گیا ہے۔ فیصلہ کیا گیا ہے کہ قانونی اور آئینی حق استعمال کرتے ہوئے اس فیصلے پر نظرثانی کی عرضی سپریم کورٹ میں داخل کی جائے گی۔

معروف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور طلبہ یونین نے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے فیصلے نظر ثانی کی عرضی داخل کرنے کا خیرمقدم کیا۔ بلکہ اے ایم یو طلبہ یونین کے سابق صدر سلمان امتیاز نے کل آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر کو خط بھی لکھا جس میں نظرثانی کی عرضی داخل کرنے
کے لیے کہا گیا۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی شعبہ دینیات کے سابق صدر پروفیسر مفتی زاہد صاحب نےخصوصی گفتگو میں بتایا نظرثانی عرضی داخل کرنا زیادہ مناسب اور اچھا ہے۔ البتہ ہمارے طرف سے بھی اور دوسرے برادران وطن سے بھی اور حکومت کی طرف سے بھی یہ کوشش ہونی چاہیے ملک کا ماحول ٹھیک رہے اور اس میں کوئی خرابی نہ آئے۔ بدقسمتی سے ساری ذمہ داری ماحول کے اچھے رکھنے کی مسلمانوں پر آ پڑی ہیں۔ ان کے ساتھ ہونے والی نا انصافی کو انصاف کہہ دیا جاتا ہے۔ بابری مسجد کے معاملے میں بھی تین بنیادی نکات جو سپریم کورٹ نے مانا ہیی۔

۱۔ 1528 میں کسی مندر کو توڑ کر مسجد کی تعمیر نہیں ہوئی۔

۲۔ 22- 23 دسمبر کی درمیان رات کو جو مورتی مسجد کے اندر رکھی گئی تھی اور عشاء تک نماز ہوئی تھی اس کو بھی تسلیم کیا ہے۔ اور کہا یہ غیرقانونی طور پر رکھی گئی۔

۳۔ مسجد کو شہید کرنا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے مسجد کو
شہید نہیں کیا ہوتا تو یہ فیصلہ تو نہیں ہوسکتا تھا۔ فیصلہ تو یہی ہوتا مسجد باقی رہے گی، فیصلہ تو مسجد شہید کردینے کی وجہ سے آیا ہے یہ فیصلے سے ہمارے کافی انصاف پسند لوگوں کو اعتراض ہے۔

شعبہ دینیات کے اسسٹنٹ پروفیسر رحان اختر نے کہا فیصلے آنے سے پہلے تمام لوگوں نے کہا تھا ہم فیصلے کو تسلیم اور اس کی عزت کریں گے۔ ملک کے آئین اور سپریم کورٹ نے کہا ہے اگر آپ فیصلے سے مطمئن نہیں ہے تو آپ نظر ثانی کی عرضی داخل کر سکتے ہیں وہ ان کا آئینی حق ہے۔

اے ایم یو طلبہ یونین کے سابق صدر سلمان امتیاز نے کہا آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورد کو ہم نے خط لکھا تھا نظرثانی عرضی داخل کرنے کے لیے۔ کیوں کہ جو فیصلہ سپریم کورٹ نے دیا ہے ہم اس کے فیصلے کی عزت کرتے ہے۔ لیکن وہ سچائی کی بنیاد پر نہیں دیا گیا ہے۔ پوری چیزیں مسلمانوں کے حق میں تھی اور فیصلہ آیا کے مندر وہیں بنائیں گے۔ تو ہماری اس سے
نااتفاقی ہے۔ کیونکہ سپریم کورٹ یہ بات کہتا ہے کہ اگر ان کے کسی فیصلے سے نا اتفاقی ظاہر کرتے ہیں تو آپ نظرثانی کی
عرضی داخل کر سکتے ہیں۔ جو کہ آئینی راستہ ہے۔

کیوں کہ ہم نہیں چاہتے ملک میں مسلمان کوئی بھی ایسی بات کہے یا کریں جس سے ملک کا جو امن بنا ہے وہ بگڑے اس لئے ہم آئینی راستے پر جانا چاہتے ہیں۔



۱۔ بائٹ۔۔۔۔۔پروفیسر مفتی زاہد۔۔۔۔۔ سابق صدر۔۔۔۔ شعبہ دینیات اے ایم یو۔ ( پہچان لال ٹوپی)

۲۔ بائٹ۔۔۔۔۔۔ اسسٹنٹ پروفیسر۔۔۔۔رحان آختر۔۔۔۔ شعبہ دینیات اے ایم یو۔۔۔۔ (پہچان چشمہ)

۳۔ بائٹ۔۔۔۔۔۔ سلمان امتیاز۔۔۔۔سابق صدر۔۔۔۔۔ طلبہ یونین اے ایم یو۔


Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.