علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) میں تقریبا 5000 تدریسی و غیر تدریسی پینشن ہولڈرز ہیں۔ جن کی جانب سے آج ایک پریس کانفرنس علی گڑھ اولڈ بوائز لاج میں رکھی گئی جس میں ریٹائرمنٹ کے مکمل فوائد ادا نہیں کیے جانے کا ذمہ دار یونیورسٹی انتظامیہ کو بتایا گیا اور صدر جمہوریہ کے نام ایک خط بھی لکھا جس کی نقل وزیر تعلیم، چیئرمین (یو جی سی)، اے ایم یو وائس چانسلر کو بھی دی گئی۔
اے ایم یو کے ریٹائرڈ پروفیسر حامد علی نے بتایا تقریباً 85 لاکھ روپے ابھی بھی ان کے بقایہ ہیں۔ میں اپنے تعلق سے اس لیے بتانا چاہتا ہوں کیوں کہ میں 30 نومبر 2019 میں ریٹائر ہو۔ ہم نے وائس چانسلر، رجسٹرار اور فینانس آفیسر کو پیغام بھیجا تو انہوں نے فون کرکے ہمیں بتایا کہ حامد صاحب یہ پریشانی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں بھی ہے، جبکہ یکم دسمبر کی بات ہے فقیر محمد جو ریٹائرڈ پروفیسر ہیں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے، انہوں نے بتایا کہ یہاں ایسی کوئی پریشانی نہیں ہے ۔
آپ کے ذریعے یہ درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ ریاستی یونیورسٹی میں جتنے بھی سبکدوش ملازمین ہیں ان کو تین ماہ کے اندر سبھی فوائد مل چکے ہیں اور اور مل رہے ہیں تو میری اتنی بڑی یونیورسٹی ہے یہاں کیا پریشانی ہے اور ابھی تک بقایہ جات کی ادائیگی نہیں کرائی جا سکی ہے۔
سنہ 2017 میں جب تک شاہ صاحب وائس چانسلر تھے تو سب کچھ 15 دنوں میں مل جاتا تھا۔ لیکن جب سے موجودہ وائس چانسلر نے زمام کار سنبھالا ہے کئی طرح کی پریشانیاں شروع ہوئی ہیں۔ یہ ہماری نہیں بلکہ تدریسی اور غیر تدریسی عملے کی پریشانی ہے۔
اے ایم یو میں تقریباً 5000 پینشنرز ہیں، مجھے کچھ بھی نہیں ملا ہے، میں یہاں کا ایکٹنگ وائس چانسلر رہا، ڈین رہا، ڈائریکٹر رہا، چار مرتبہ چیئرمین رہا، (FEDCUTA) کا سینئر نائب صدر رہا کا۔
ریٹائرڈ پروفیسر عارف الاسلام نے بتایا اگر یہ حکومت کی جانب سے پریشانی ہوتی تو مرکزی یونیورسٹیوں میں ہنگامہ ہوگیا ہوتا، یہ صرف علی گڑھ میں ہی کیوں ہورہا ہے؟ اس لیے ہمیں لگتا ہے حکومت کی جانب سے کوئی پریشانی نہیں ہے، یہ پریشانی یونیورسٹی سطح پر ہے جس کی ذمہ دار انتظامیہ ہے۔
میں آپ کو بتاتا ہوں کہ جب میں نے وائس چانسلر کو پیغام بھیجا کہ میری اتنی رقم بقایہ ہے۔ یونیورسٹی مجھ کو پیسہ نہیں دے رہی ہے تو وائس چانسلر نے مجھے پیغام بھیجا کہ فینانس آفیسر نے مجھے آپ فائل دکھائی ہے آپ کا سارا پیمنٹ ہوگیا ہے۔ پھر میں اگلے دن فینانس آفیسر سے ملنے گیا اور انہیں وہ خط دکھایا جو انہوں نے مجھے لکھا تھا اور میں نے کہا آپ نے وائس چانسلر سے یہ بات کیسے کہہ دی۔ انہوں نے آپ کا حوالہ کیوں کر دیا۔ میرا تقریبا 25-26 لاکھ روپیے بقایہ ہے۔ میں مارچ 2018 میں ریٹائرڈ ہوا تھا۔
وہیں یونیورسٹی فینانس آفیسر جاوید اختر سے فون پر رابطہ قائم کرنے پر اس معاملے پر کچھ بھی بولنے سے اور ملاقات کرنے سے انہوں نے گریز کیا۔