معروف محقق نقاد شمس الرحمن فاروقی کا آج آلہ آباد میں انتقال ہوگیا۔ انہوں نے چالیس برس تک اردو کے مشہور و معروف ادبی ماہنامہ 'شب خون' کی ادارت کی اور اس کے ذریعہ اردو میں ادب کے متعلق اپنے خیالات اور برصغیر کے ساتھ دوسرے ممالک کے اعلی ادب کی تجویج کی۔
پدم شری شمس الرحمن فاروقی، 15 جنوری سنہ 1935 کو اتر پردیش کے ضلع پرتاب گڑھ میں پیدا ہوئے، الہ آباد یونیورسٹی سے سنہ 1953 میں انگریزی میں ایم اے کیا۔ آپ کی عمر 85 برس کی تھی۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی شعبہ اردو کے پروفیسر سراج اجملی نے غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اردو تہذیب اور اردو ادب کا اتنا بڑا نام شاید اب کوئی دوسرا نہیں ہوگا۔ جس کے سر پر سورج چمکے، سورج سے شمس الرحمن فاروقی کا رشتہ عجیب و غریب ہے۔ شمس کے معنی سورج کے ہی تو ہوتے ہیں، تو شمش الرحمٰن فاروقی وہ آفتاب تھے کہ جس نے ایک زمانے کو روشن کیا۔ ایک ہمہ جہت فنکار، ادیب، دانشور، مفکر، اردو، فارسی انگریزی ان تینوں زبانوں پر تو شمس الرحمن فاروقی صاحب کو اہل زبان جیسی قدرت حاصل تھی، اس کے علاوہ فرانسیسی، عربی، سنسکرت اور ہندی بھی اچھی خاصی جانتے تھے۔
اے ایم یو ویمنس کالج کے اسسٹنٹ پروفیسر فرقان سنبھلی نے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ شمس الرحمن فاروقی کا مقام اردو دنیا میں ایسا مقام تھا جس کو کوئی چھو نہیں سکتا، ان کا انتقال اردو دنیا کے لیے ایسا سانحہ ہے، جس کی وجہ سے اردو دنیا میں ایک بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے اور یہ آسانی سے بھرا نہیں جا سکتا۔'
یہ بھی پڑھیں: پدم شری شمس الرحمٰن فاروقی کا انتقال
فرقان سنبھلی نے مزید کہا کہ 'میرا شمس الرحمن فاروقی سے بہت پرانا تعلق ہے کیونکہ 2004 میں میں نے ایک کتاب شائع کی تھی۔ آئینائے فلکیات کے نام سے جب میں نے اس کتاب کو ان کے پاس بھیجا تو ان کا ایک بہت خوبصورت جواب میرے پاس آیا جس میں انہوں نے بہت اچھے الفاظ میرے لئے استعمال کئے۔ وہ اس وقت این سی پی یو ایل کے وائس چیئرمین تھے۔ انہوں نے لکھا کہ ہمارے یہاں فلکیات سے متعلق موضوعات پر کتابیں بہت کم ہیں اور آج ان پر کم لکھا جاتا ہے، تو اس لیے آپ اس کتاب کو وہاں بھیج دیجئے تاکہ کونسل اس کو خریدے، جس سے بہت سارے لوگوں کو فائدہ ہو۔