ETV Bharat / state

' تشدد ایک طرح کی بے بسی اور لاچاری ہے '

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پروفیسر شافع قدوائی کا کہنا ہے کہ گاندھی جی نے شروع سے ہی یہ دیکھا کہ انسانوں اور انسانوں کے درمیان کسی قسم کا کوئی بھی امتیازی سلوک نہیں ہونا چاہیے۔

پروفیسر شافع قدوائی
author img

By

Published : Aug 23, 2019, 3:38 PM IST

Updated : Sep 28, 2019, 12:13 AM IST

ای ٹی وی بھارت سے خصوصی بات چیت میں شافع قدوائی نے موجودہ حالات کے تناظر میں کہا کہ گاندھی جی کی اصل تعلیم یہی ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کو اپنا سمجھے اور جو آپ چاہتے ہیں کہ دوسرا انسان آپ کے ساتھ سلوک کرے ویسا آپ بھی دوسروں کے ساتھ سلوک کریں۔ وسیع تر انسانی کائنات میں سب برابر کا حصہ ہے۔

پروفیسر شافع قدوائی

قدوائی کا مزید کہنا ہے کہ جمہوری اقدار میں صرف ایسا نہ ہو کہ جو اکثر یتی فرقے کے لوگوں کی ہی بات چلے بلکہ اس میں سب فرقہ کے لوگ شامل ہوں اور سب مل جل کے زندگی گزاریں۔


قدوائی کا کہنا ہے کہ تکثیری سماج کا جو نظریہ ہے جس کو ہم پلورل سوسائٹی کہتے ہیں گاندھی جی نے اصل میں دکھلایا اور اس پر عمل کرکے بتایا کہ کیسے ایک ایسا معاشرہ جس میں مختلف زبان بولنے والے مختلف مذہب کے پیروکار رہتے ہیں وہ کیسے رہیں گے۔


آج کا جو زمانہ ہے جہاں صرف نفرت کی زبان سمجھی جاتی ہے۔ لگتا ہے کہ صرف بھارت میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں نفرت، جنگ، تشدد ہے اور گاندھی جی اس کے بالکل خلاف تھے۔

قدوائی نے یہ بھی بتایا کہ دونوں جنگ عظیم کے بعد گاندھی جی نے یہ ثابت کرکے دکھایا کہ آپ عدم تشدد کے ذریعے کیسے اپنی بات منوا سکتے ہیں۔

عدم تشدد میں تشدد سے زیادہ طاقت ہوتی ہے، جو تشدد ہے وہ ایک طرح کی بے بسی اور لاچاری ہے جب آپ کچھ نہیں کرپاتے ہیں تو آپ کسی کو مار دیں گے یا قتل کردیں گے لیکن اس کے دل کو جیتنا اور اس کے دل کو بدلنا بہت مشکل کام ہے جو گاندھی جی نے اپنی زندگی میں ہمیں کر کے دکھایا ہے۔

شافع قدوائی نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب جو ہمارے سامنے دنیا آئی ہے نیا ہندوستان آیا، نقشہ آیا ہے انھیں لگتا کہ گاندھی جی کہ بہت سے اقدار کو ہم نے پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ بلکہ یہ حکومت کا جو اقتدار کا حصہ ہے وہ روز بروز محدود تر ہوتا جا رہا ہے اور تمام لوگوں کو سماجی، مساوی، معاشی حقوق نہیں مل پائے ہیں۔

شافع قدوائی نے آخر میں یہ کہا کہ گاندھی جی کا خواب تھا کہ ایک ایسا بھارت جہاں تمام لوگ ایک ساتھ رہیں گے امن سے رہیں گے ایک خوشحالی کا راستہ تھا۔


اب ملک ایسا لگتا ہے گاندھی جی کے راستے سے بہت دور نکل آیا ہے اب ایک موقع ہے کہ جب گاندھی جی کی 150 ویں سالگرہ منائی جارہی ہے تو اب یہ ضروری ہے کہ گاندھی جی کو ہم پھر سے یاد کریں۔

ای ٹی وی بھارت سے خصوصی بات چیت میں شافع قدوائی نے موجودہ حالات کے تناظر میں کہا کہ گاندھی جی کی اصل تعلیم یہی ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کو اپنا سمجھے اور جو آپ چاہتے ہیں کہ دوسرا انسان آپ کے ساتھ سلوک کرے ویسا آپ بھی دوسروں کے ساتھ سلوک کریں۔ وسیع تر انسانی کائنات میں سب برابر کا حصہ ہے۔

پروفیسر شافع قدوائی

قدوائی کا مزید کہنا ہے کہ جمہوری اقدار میں صرف ایسا نہ ہو کہ جو اکثر یتی فرقے کے لوگوں کی ہی بات چلے بلکہ اس میں سب فرقہ کے لوگ شامل ہوں اور سب مل جل کے زندگی گزاریں۔


قدوائی کا کہنا ہے کہ تکثیری سماج کا جو نظریہ ہے جس کو ہم پلورل سوسائٹی کہتے ہیں گاندھی جی نے اصل میں دکھلایا اور اس پر عمل کرکے بتایا کہ کیسے ایک ایسا معاشرہ جس میں مختلف زبان بولنے والے مختلف مذہب کے پیروکار رہتے ہیں وہ کیسے رہیں گے۔


آج کا جو زمانہ ہے جہاں صرف نفرت کی زبان سمجھی جاتی ہے۔ لگتا ہے کہ صرف بھارت میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں نفرت، جنگ، تشدد ہے اور گاندھی جی اس کے بالکل خلاف تھے۔

قدوائی نے یہ بھی بتایا کہ دونوں جنگ عظیم کے بعد گاندھی جی نے یہ ثابت کرکے دکھایا کہ آپ عدم تشدد کے ذریعے کیسے اپنی بات منوا سکتے ہیں۔

عدم تشدد میں تشدد سے زیادہ طاقت ہوتی ہے، جو تشدد ہے وہ ایک طرح کی بے بسی اور لاچاری ہے جب آپ کچھ نہیں کرپاتے ہیں تو آپ کسی کو مار دیں گے یا قتل کردیں گے لیکن اس کے دل کو جیتنا اور اس کے دل کو بدلنا بہت مشکل کام ہے جو گاندھی جی نے اپنی زندگی میں ہمیں کر کے دکھایا ہے۔

شافع قدوائی نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب جو ہمارے سامنے دنیا آئی ہے نیا ہندوستان آیا، نقشہ آیا ہے انھیں لگتا کہ گاندھی جی کہ بہت سے اقدار کو ہم نے پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ بلکہ یہ حکومت کا جو اقتدار کا حصہ ہے وہ روز بروز محدود تر ہوتا جا رہا ہے اور تمام لوگوں کو سماجی، مساوی، معاشی حقوق نہیں مل پائے ہیں۔

شافع قدوائی نے آخر میں یہ کہا کہ گاندھی جی کا خواب تھا کہ ایک ایسا بھارت جہاں تمام لوگ ایک ساتھ رہیں گے امن سے رہیں گے ایک خوشحالی کا راستہ تھا۔


اب ملک ایسا لگتا ہے گاندھی جی کے راستے سے بہت دور نکل آیا ہے اب ایک موقع ہے کہ جب گاندھی جی کی 150 ویں سالگرہ منائی جارہی ہے تو اب یہ ضروری ہے کہ گاندھی جی کو ہم پھر سے یاد کریں۔

Intro:ملک اب ایسا لگتاہے گاندھی جی کے راستے سے بہت دور نکل آیا ہے : پروفیسر شافع قدوائی۔


Body:پروفیسر شافع قدوائی سے خاص ملاقات۔

گاندھی جی نے شروع سے ہی یہ دیکھا انسانوں اور انسانوں کے درمیان کسی قسم کا کوئی بھی امتیازی سلوک نہیں ہونا چاہیے، سب وسیع تر انسانی کائنات ہیں سب برابر کا حصہ ہے

گاندھی جی کی اصل تعلیم یہی ہے کہ دوسرے انسان کو اپنا سمجھے اور جو آپ چاہتے ہیں دوسرا انسان آپ کے ساتھ سلوک کرے ویسا آپ بھی دوسروں کے ساتھ سلوک کریں۔

جمہوری اقدار جو ہے صرف ایسا نہ ہو کہ جو اکثر تی فرقے کے لوگ ہو انہی کی بات چلے بلکہ وہ سب کے دکھ سکھ میں چاہتے تھے اور سب مل جل کے زندگی گزارے۔

تکثیری سماج کا جو نظریہ ہے جس کو ہم پلورل سوسایٹی کہتے ہیں گاندھی جی نے اصل میں دکھلایا اور اپنے عمل میں بتایا کیسے ایک ایسا معاشرہ جس سے مختلف زبان بولنے والے مختلف مذہب کے پیروکار رہتے ہیں وہ کیسے رہیں گے۔ آج کا جو زمانہ ہے جہاں صرف نفرت کی زبان سمجھی جاتی ہے۔ لگتا ہے کہ صرف ہندوستان میں ہی نہیں پوری دنیا میں نفرت، جنگ، تشدد کا راستہ ہے گاندھی جی اس کے بلکل برخلاف۔

دو جنگ عظیم و کے بعد انہوں نے دیکھلایا کہ آپ تشدد کے ذریعے کیسے اپنی بات منوا سکتے ہیں۔

عدم تشدد میں تشدد سے زیادہ طاقت ہوتی ہے جو تشدد ہے وہ ایک طرح کی بے بسی اور لاچاری ہے جب آپ کچھ نہیں کرتے ہیں تو آپ کسی کو مار دیں گے یا قتل کردیں گے لیکن اس کے دل کو جیتنا اور اس کے دل کو بدلنا بہت مشکل کام ہے۔ جو گاندھی جی نے اپنی زندگی میں ہم کو کر کےدکھلایا۔

اب جو ہمارے سامنے دنیا آئی ہے نیا ہندوستان آیا، نقشہ آیا ہے مجھے نہیں لگتا کہ گاندھی جی کہ بہت سے حقدار کو ہمنے پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ گاندھی جی جس طرح سے چاہتے تھے کہ ایک عام آدمی کی حکومت میں ہر طرح کے عمل میں شراکت داری ہو، وہ شراکت داری مجھے نہیں لگتا وہ ہمارے سامنے آ رہی ہے۔ بلکہ یہ جو حکومت کا اقتدار کا حصہ ہے وہ روزبروز محدود تر ہوتا جا رہا ہے اور تمام لوگوں کو سماجی، مساوی، معاشی ایک اقتدا سی حقوق نہیں مل پائے ہیں۔

گاندھی جی کا جو ایک خواب تھا کہ ایک ایسا ہندوستان جہاں تمام لوگ ایک ساتھ رہیں گے امن سے رہیں گے ایک خوشحالی کا راستہ تھا۔

پارشرمکلو نے کہا تھا پوری دنیا ایک عالمی گاؤں ہے اب عالمی گاؤں تو بن گئی ہے لیکن عالمی گاؤں میں تشدد بہت ہے نفرت ہے تو اس کے لئے ہماری گاندھی جی کی طرف نظر پڑتی ہے جنہوں نے بتایا تھا کہ کیسے ہم عالمی گاؤں کو ایک ایسی جگہ بنائی جہاں ہم تمام لوگ سکون کے ساتھ خوشحالی کے ساتھ رہ سکیں اپنی جو بھی آرزومندی ہے آپ کے جو خواب ہیں جو آپ کی ثقافت ہے آپ کے جو مذہبی اخبار ہے انکی ہم تکداری کر سکیں۔

اب ملک ایسا لگتا ہے گاندھی جی کے راستے سے بہت دور نکل آیا ہے اب ایک موقعہ ہے کہ جب گاندھی جی کی 150 ویں صدی منائی جارہی ہے تو اب یہ ضروری ہے کے گاندھی جی کو پھر سے یاد کریں، دیکھیں سیاست کے بارے میں مذہب کے بارے میں سخافت کے بارے میں کیا کیا کہا اور اس کو پھر سے یاد رکھنے کی ضرورت ہے۔


۱۔ بائٹ۔۔۔۔۔۔پروفیسر شافع قدوائی۔۔۔۔ایم آئی سی۔۔۔۔ دفتر رابطہ امہ۔۔۔۔۔ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی علیگڑھ۔








Conclusion:
Last Updated : Sep 28, 2019, 12:13 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.