گیتا اور قرآن کے اخلاقی جہات" (Ethical Dimension of the Gita and the Quran) موضوع پر مبنی ریسرچ پروجیکٹ کے لیے ڈھائی لاکھ روپے کی گرانٹ آئی سی پی آر، وزارت تعلیم حکومت ہند کی جانب سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پروفیسر لطیف حسین شاہ کاظمی کو موصول ہوئی ہے۔ پروفیسر لطیف کا کہنا ہے "قرآن اور گیتا کا پیغام ایک ہی ہے"۔ AMU Professor Receives ICPR Grant
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے شعبہ فلسفہ کے پروفیسر لطیف حسین شاہ کاظمی کو انڈین کونسل آف فلوسفیکل ریسرچ (آئی سی پی آر) وزارت تعلیم حکومت ہند کی جانب سے "گیتا اور قرآن کے اخلاقی جہات" (Ethical Dimension of the Gita and the Quran)موضوع پر مبنی ریسرچ پروجیکٹ کے لیے ڈھائی لاکھ روپے کی گرانٹ دی گئی ہے۔ پروفیسر لطیف قاسمی نے کہا "گیتا اور قرآن کریم میں مذکورہ نمایاں اخلاقی صفات و خصوصیات پر کام کرنا میرے لئے باعث مسرت ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ مشترکہ بنیادوں کی تفہیم، بین المذاہب مقالمے اور بقائے باہم کے لیے پلیٹ فارم مہیا کرنے کی خاطر اسکالرز تقابلی مذہبی مطالعات کو فروغ دیں"۔پروفیسر لطیف نے بتایا میری اس ریسرچ میں کوشش ہوگی کہ قرآن مجید اور بھگوت گیتا میں جو بھی عام عناصر ہیں ان کو سامنے لایا جائے تاکہ ہندو اور مسلمان جو اپنے اپنے مذہب کے مطابق عبادات میں مصروف ہیں وہ یہ دیکھ لیں کہ دونوں مذاہب میں کتنی چیزیں عام ہیں اور کس طرح ان عام چیزوں کو ساتھ دونوں مذاہب کے لوگ بھارت میں ایک ساتھ خوشی کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ اگر ہم ایک دوسرے کے مذہب کو پہچان لیں ان کے پیغامات کو سمجھ لیں تو ہم کبھی ایک دوسرے کے ساتھ لڑائی جھگڑا نہیں کریں گے، ایک دوسرے سے کبھی نفرت نہیں کریں گے جو آج کل کے ماحول میں بھارت میں چل رہا ہے۔
پروفیسر لطیف نے بتایا بھارت کا مستقبل، بھارت کی ترقی اور خوشحالی اسی وقت ممکن ہے جب ہم دونوں مذاہب کے لوگ ایک دوسرے کی مذہبی کتابوں کو پڑھیں گے اور سمجھیں گے۔ ابھی تک جو میں نے دونوں مذاہب کی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے مجھے لگتا ہے قرآن مجید اور بھگوت گیتا کا پیغام ایک ہے، عبادات کے طریقے الگ ہوسکتے ہیں مقامات الگ ہو سکتے ہیں لیکن یہ سمجھ لینا کہ میرے مذہب میں جو عبادت کا طریقہ ہے وہ اعلی ہے اور دوسرے مذہب کا طریقہ غلط ہے ایسی وہی لوگ بات کرتے ہیں جنہوں نے نہ ہی قرآن مجید کو پڑھا ہے اور نہ ہی بھگوت گیتا کو اگر دونوں مذاہب کی مذہبی کتاب کو اچھے طریقے سے پڑھا اور سمجھا جائے تو معلوم چلتا ہے کہ دونوں ہی کتابیں برائی کے خلاف اور اچھائی کی ترغیب دیتی ہیں ہم سب لوگوں کو برائی کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا ہے اور پیار و محبت کو بڑھانا ہے تاکہ ہمارا بھارت پھل پھول سکے۔