اترپردیش اردو اکیڈمی ہر برس مصنف اور کتابوں کو انعامات کے لیے منتخب کرتی ہے، اس میں مختلف درجات ہوتے ہیں۔
رواں برس پروفیسر محمد سجاد کی کتاب "ہندوستانی مسلمان مسائل و امکانات"کو بھی ایوارڈ کے لیے منتخب کیا گیا لیکن پروفیسر محمد سجاد نے ایوارڈ لینے سے انکار کر دیا اور اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔
پروفیسر محمد سجاد نے بتایا کہ 'انعام ملنا ایک بڑی بات ہوتی ہے اور یہ میرے لیے بھی خوشی کی بات تھی کہ میری کتاب کی اس قدر بزیرائی ہوئی'۔
انہوں نے کہا کہ 'میری کتاب کو اس قدر سراہا گیا کہ وہ ایوارڈ کے فہرست کے شامل ہو گئی۔ اس کے اگلے ہی دن خبر آنے لگی کے اتر پردیش اردو اکیڈمی کی چیئرپرسن نے انعام لے لیا ہے اور جوری کے دو ممبران نے بھی ویسے ہی انعام لے لیا ہے، یہ اخلاقی نقطہ نظر سے غلط ہے کہ کوئی بھی جوری ممبر خود کو آیوارڈ دلوائے'۔
انہوں نے مزیدی کہا کہ 'جہاں تک مجھے لگتا ہے دیگر جوری ممبران نے کوئی نوٹ آف ڈیسنٹ بھی شاید نہیں دیا ہے، اس بات کو جان کر مجھ کو مزید تکلیف ہوئی'۔
'اس کے بعد مجھے لگا کہ یہ ایوارڈ فخر کے بجائے شرم کی بات ہے لہذا مجھے واپس کر دینا چاہیے'۔
پروفیسر محمد سجاد نے کہا کہ 'حکومت نے وجہ بتاؤ نوٹس جاری کر کے پوچھا اور جس کے بعد ان تینوں لوگوں نے ایوارڈز واپس کیے'۔
'سوال ہے کہ پورا عمل مسنوخ ہونا چاہیے کیونکہ جوری ممبران کا فیصلہ مشکوک ہوچکا ہے۔ اس صورت میں میری زیادتی اپیل ہے کہ نئی جوری بنائی جائے جو رواں برس کے انعامات کو طے کریں اور اس کے بعد اتر پردیش اردو اکیڈمی اعلان کرے'۔
انہوں نے مزید کہا کہ 'اس سلسلے میں ہم نے سوشل میڈیا پر لکھا ہے اور اردو اکیڈمی کو میل بھی کیا ہے تاہم میل کا ابھی تک جواب بھی نہیں آیا'۔