پروفیسر محمد علی جوہر نے آغاز میں تمام مرحومین سے متعلق تفصیل سے اظہار خیال کیا انہوں نے اس بات کا خصوصی طور پر ذکر کیا کہ اگر وہ ذاتی صدمے سے دوچار نہ ہوئے ہوتے تو یہ تعزیتی جلسہ بہت پہلے منعقد ہو گیا ہوتا۔
واضح رہے کہ پروفیسر جوہر علی کی اہلیہ محترمہ صفیہ جبیں مختصر علالت کے بعد اس دار فانی سے کوچ کرگئیں۔ جس کے باعث تعزیتی جلسہ مؤخر ہو گیا۔
پروفیسر محمد علی جوہر نے پروفیسر شمیم حنفی اور ڈاکٹر رضا حیدر کے سانحہ ارتحال کا بھی خصوصی طور پر ذکر کیا۔ شمیم حنفی علیگڑھ کے شعبہ اردو سے وابستہ تھے۔ اور رضا حیدر بھی دانشگاہ علی گڑھ سے ایک خاص قربت رکھتے تھے۔
تعزیتی جلسے کے مقرر پروفیسر سراج اجملی نے تفصیل کے ساتھ پروفیسر مولابخش اور پھر ڈاکٹر فرقان سنبھلی کے حوالے سے اپنے تاثرات ظاہر کیے۔ انہوں نے مولا بخش کو ایک زندہ دل انسان اور ادب کے لئے پوری طرح وقف ادیب بتایا۔
انہوں نے پروفیسر مولا بخش کے مطبوعہ کتابوں کے ساتھ اس پروجیکٹ کا خصوصی طور پر ذکر کیا جس کے تحت وہ گزشتہ کئی برسوں سے اسلوبیات سے متعلق تقریبا تین ہزار صفحات قلمبند کر چکے تھے۔
پروفیسر سراج اجملی نے مذید کہا کہ مولا بخش انصاری کا غیر مطبوعہ پروجیکٹ ضرور شائع ہونا چاہئے۔ تا کہ ان کی ادبی قدرو قیمت کا صحیح اندازہ ہو سکے۔
پروفیسر شہاب الدین ثاقب نے پروفیسر مسعود عالم سے متعلق اپنے خیالات ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک شفیق استاد اور اعلی شخصیت کے مالک تھے۔ وہ طلبہ سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ اور شعبہ اردو کی نیک نامی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتےتھے۔
پروفیسر ثاقب نہ پروفیسر مسعود عالم کی انتظامی صلاحیتوں کو نمایاں کیا اور ان کی نفاست اور خوش پوشاکی کے ساتھ ان کے اخلاقی اوصاف پر روشنی ڈالی۔
مزید پڑھیں:اے ایم یو کے بند ہونے سے کتابوں کا کاروبار متاثر
پروفیسر صغیر افراہیم نے پروفیسر شمیم حنفی کے حوالے سے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اردو میں جدید ادب کو نئی سمت عطا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے کہا کے شمیم صاحب انسان دوست ادیب تھے۔ اور اپنی تحریروں میں وہ اسی بنیادی جذبے کو نمایاں کرتے تھے۔