علیگڑھ: عالمی شہرت یافتہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے اقلیتی کردار کو برقرار رکھنے کی سماعت گزشتہ تین روز سے سپریم کورٹ میں جاری ہے۔ اس دوران گزشتہ روز اے ایم یو اولڈ بوائز ایلومنائی ایسوسی ایشن کے ایڈووکیٹ کپل سبل نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ اے ایم یو کے لیے اقلیتی درجہ کی ضرورت ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ مسلمان کئی شعبوں میں ابھی بھی پیچھے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ریزرویشن ضروری ہے۔ سپریم کورٹ کی سات ججوں کی بنچ اے ایم یو اولڈ بوائز ایلومنائی ایسوسی ایشن اور دیگر کی طرف سے یونیورسٹی کی اقلیتی حیثیت کو بحال کرنے کی درخواستوں کی سماعت کر رہی ہے۔ سپریم کورٹ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی اقلیتی حیثیت کو چھیننے والے پانچ ججوں کی بنچ کے 1968 کے فیصلے کی درستگی کا جائزہ لے رہی ہے۔
اے ایم یو کی اقلیتی حیثیت کا دفاع کرتے ہوئے سینئر وکیل کپل سبل نے بدھ کو سپریم کورٹ کے سامنے دلیل دی کہ ہندوستان میں مسلمان تعلیم کے معاملے میں درج فہرست ذاتوں سے بدتر ہیں۔ انہیں صرف تعلیم کے ذریعے ہی بااختیار بنایا جا سکتا ہے۔
سپریم کورٹ کی 7 ججوں کی بنچ اے ایم یو کی اقلیتی حیثیت سے متعلق کیس کی سماعت کر رہی ہے۔ بنچ میں چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس سوریہ کانت، جے بی پارڈی والا، دیپانکر دتا، منوج مشرا اور ستیش چندر شرما اس معاملے کی سماعت کررہے ہیں۔
اس کیس میں شامل قانون کے سوالات آرٹیکل 30 کے تحت تعلیمی ادارے کو اقلیتی درجہ دینے کے پیرامیٹرز سے متعلق ہیں، اور کیا پارلیمانی قانون کے ذریعے قائم کردہ مرکزی فنڈ سے چلنے والی یونیورسٹی کو اقلیتی ادارہ نامزد کیا جا سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:اے ایم یو کے اقلیتی کردار پر سپریم کورٹ میں سماعت کا پہلا دن
مرکز نے سپریم کورٹ سے کہاکہ اے ایم یو قومی یونیورسٹی ہے، اقلیتی درجہ کا دعویٰ نہیں کر سکتی۔ مرکز کی طرف سے تحریری عرضی سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے 7 ججوں کی آئینی بنچ کے سامنے کی تھی جو علی گڑھ مسلم کی اقلیتی حیثیت کو چھیننے والے پانچ ججوں کی بنچ کے ذریعہ 1968 کے فیصلے کی درستگی کی جانچ کرنے کے لئے درخواستوں کے ایک بنچ کی سماعت کر رہی ہے۔