چیف جسٹس گوند ماتھر اور جسٹس وویک ورما کی بنچ نے الہ آباد کے محمد امان خان کی پی آئی ایل پر جمعرات کو یہ ہدایت دیا۔ وہیں دوسری جانب ریاستی حکومت کی جانب سے پی آئی ایل کی صحت پر سوال اٹھائے ہیں۔ حکومت کے مطابق اگر ہاسٹل کو زبردستی خالی کرایا گیا ہے تو کوئی متأثرہ طالب علم نے عدالت کا دروازہ کیوں نہیں کھٹکھٹایا۔ یہ الزام کی کچھ طالب علم لاپتہ ہیں ایسے طلبہ کے اہل خانہ عدالت کیوں نہیں گئے۔ عرضی میں من مانی اور بے بنیاد الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ حالانکہ عدالت نے پولیس کی جانب سے لاٹھی چارج پر حکومت سے جواب طلب کیا ہے۔
عرضی میں یونیورسٹی احاطے سے پولیس فورس کو فورا واپس بلانے اور ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج سے پورے واقعہ کی ابتدائی جانچ کرانے اور اس کی مانیٹرنگ ہائی کورٹ کی جانب سے کئے جانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ عرضی گذار کا کہنا ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ طلبہ مولانا آزاد لائبریری کے نزدیک گیٹ کے اندر موجود تھے اور باہر پولیس نے بیریکیٹنگ کر رکھی تھی۔ پولیس طلبہ کو مشتعل کر رہی تھی۔
عرضی میں پولیس پر الزام لگایا گیا ہے کہ اس نے طلبہ کو گندی گالیاں دیں اور ان کی بے رحمی کے ساتھ پٹائی کی جس میں 100 سے زیادہ طالب علم زخمی ہو گئے جن میں سے تین کی حالت کافی نازک ہے۔ زخمی طلبہ کو ٹراما سنٹر جواہر لال نہرو میڈیکل کالج اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے جہاں ان کا علاج چل رہا ہے۔
یونیورسٹی کو بند کرنے کا اعلان کر کے ہاسٹل کو زبردستی خالی کرایا گیا ہے۔ کچھ طالب علم کشمیر، لداخ اور مشرقی ریاستوں سے آئے ہوئے ہیں۔ ہاسٹل خالی کرنے کے لئے ان پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ کئی طالب علم لاپتہ ہیں جنہیں پولیس پر حراست میں رکھنے کا الزام ہے۔عرضی میں پولیس پر ہراسانی کا الزام لگاتے ہوئے پورے معاملے کی عدالتی جانچ کا مطالبہ کیا گیا ہے۔