یونیورسٹی کی جامع مسجد کو سر سید جامع مسجد کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ مسجد کی بنیاد خود سرسید احمد خان نے سنہ 1879 میں رکھی جو آپ کے انتقال کے 17 سال بعد یعنی جنوری 1915 میں مکمل ہوئی۔
مسجد میں تین گنبد اور دو میناریں ہیں اور اس کا ڈیزائن لاہور کی بڑی مغل بادشاہی مسجد سے ملتا جلتا ہے۔ یونیورسٹی کے بانی سرسید احمد خان کی قبر بھی اسی مسجد میں موجود ہے۔
یونیورسٹی اردو اکیڈمی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر راحت ابرار نے نمائندہ ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران بتایا کہ تاج محل کی خطاطی کے لیے شاہ جہاں نے ایران سے ایک خطاط کو بلوایا اس کا نام یاقوت رقہ تھا۔ پوری کیلیگرافی انہیں کے ذریعے کی گئی تھی۔ اتفاق سے انہوں نے ہی دہلی کی جامع مسجد کے پاس واقع اکبری مسجد کی بھی خطاطی کی تھی۔
سنہ 1857میں جسے غدر کا سانحہ بھی کہتے ہیں اس وقت سارے علماء جب وہاں موجود تھے، انگریزوں نے اس تاریخی مسجد کو شہید کردیا۔ اس مسجد کے ملبے کا علم سر سید احمد خاں کو تھا کیوں کہ بانی موصوف وہیں کے رہنے والے تھے، اس پر جو قرآن پاک کی آیت کندہ تھی وہ سورۃ الفجر کی آیات تھیں۔ سرسید کو جب پتہ چلا کہ اسے فروخت کیا جا رہا ہے تو اس وقت انہوں نے 102 روپے میں اسے خرید لیا اور یہ عزم کیا کہ جب وہ کیمپس میں مسجد کی تعمیر کرائیں گے تو اس کے صدر دروازے پر اسی کندہ شدہ آیات الہیہ کو وہاں آویزاں کریں گے۔ اور بعد میں ایسا ہی ہوا۔
یونیورسٹی کے شعبہ دینیات کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر ریحان اختر نے بتایا اس مسجد کی اہمیت اس لیے زیادہ بڑھ جاتی ہے کیوں کہ اس کیمپس میں مختلف مکتبہ فکر کے لوگ رہتے ہیں۔ خواہ ان کا تعلق شیعہ مکتبہ فکر سے ہو یا سنی مکتبہ فکر سے۔ اس تاریخی مسجد میں مل کر نماز ادا کرتے ہیں، لیکن یہاں جماعتیں الگ الگ ہوتی ہیں۔ اگر کسی مسجد کو اتحاد و وحدت کی زندہ و جاوید علامت قرار دیا جاسکتا ہے تو وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی یہی تاریخی مسجد ہے۔