ETV Bharat / state

اے ایم یو کی تاریخی جامع مسجد پر خصوصی رپورٹ - خطاط یاقوت رقہ

ریاست اترپردیش کے ضلع علی گڑھ میں واقع عالمی شہرت یافتہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کی جامع مسجد کے صدر دروازے پر سورۃ الفجر کی کندہ دلکش آیات کو یونیورسٹی کے بانی سرسید احمد خان نے دہلی کی شہید اکبری مسجد کے ملبے سے 102 روپے میں خرید کر لگوایا تھا۔

اے ایم یو کی تاریخی جامع مسجد
اے ایم یو کی تاریخی جامع مسجد
author img

By

Published : Jun 15, 2020, 8:12 PM IST

یونیورسٹی کی جامع مسجد کو سر سید جامع مسجد کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ مسجد کی بنیاد خود سرسید احمد خان نے سنہ 1879 میں رکھی جو آپ کے انتقال کے 17 سال بعد یعنی جنوری 1915 میں مکمل ہوئی۔

مسجد میں تین گنبد اور دو میناریں ہیں اور اس کا ڈیزائن لاہور کی بڑی مغل بادشاہی مسجد سے ملتا جلتا ہے۔ یونیورسٹی کے بانی سرسید احمد خان کی قبر بھی اسی مسجد میں موجود ہے۔

یونیورسٹی اردو اکیڈمی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر راحت ابرار نے نمائندہ ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران بتایا کہ تاج محل کی خطاطی کے لیے شاہ جہاں نے ایران سے ایک خطاط کو بلوایا اس کا نام یاقوت رقہ تھا۔ پوری کیلیگرافی انہیں کے ذریعے کی گئی تھی۔ اتفاق سے انہوں نے ہی دہلی کی جامع مسجد کے پاس واقع اکبری مسجد کی بھی خطاطی کی تھی۔

اے ایم یو کی تاریخی جامع مسجد

سنہ 1857میں جسے غدر کا سانحہ بھی کہتے ہیں اس وقت سارے علماء جب وہاں موجود تھے، انگریزوں نے اس تاریخی مسجد کو شہید کردیا۔ اس مسجد کے ملبے کا علم سر سید احمد خاں کو تھا کیوں کہ بانی موصوف وہیں کے رہنے والے تھے، اس پر جو قرآن پاک کی آیت کندہ تھی وہ سورۃ الفجر کی آیات تھیں۔ سرسید کو جب پتہ چلا کہ اسے فروخت کیا جا رہا ہے تو اس وقت انہوں نے 102 روپے میں اسے خرید لیا اور یہ عزم کیا کہ جب وہ کیمپس میں مسجد کی تعمیر کرائیں گے تو اس کے صدر دروازے پر اسی کندہ شدہ آیات الہیہ کو وہاں آویزاں کریں گے۔ اور بعد میں ایسا ہی ہوا۔

یونیورسٹی کے شعبہ دینیات کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر ریحان اختر نے بتایا اس مسجد کی اہمیت اس لیے زیادہ بڑھ جاتی ہے کیوں کہ اس کیمپس میں مختلف مکتبہ فکر کے لوگ رہتے ہیں۔ خواہ ان کا تعلق شیعہ مکتبہ فکر سے ہو یا سنی مکتبہ فکر سے۔ اس تاریخی مسجد میں مل کر نماز ادا کرتے ہیں، لیکن یہاں جماعتیں الگ الگ ہوتی ہیں۔ اگر کسی مسجد کو اتحاد و وحدت کی زندہ و جاوید علامت قرار دیا جاسکتا ہے تو وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی یہی تاریخی مسجد ہے۔

یونیورسٹی کی جامع مسجد کو سر سید جامع مسجد کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ مسجد کی بنیاد خود سرسید احمد خان نے سنہ 1879 میں رکھی جو آپ کے انتقال کے 17 سال بعد یعنی جنوری 1915 میں مکمل ہوئی۔

مسجد میں تین گنبد اور دو میناریں ہیں اور اس کا ڈیزائن لاہور کی بڑی مغل بادشاہی مسجد سے ملتا جلتا ہے۔ یونیورسٹی کے بانی سرسید احمد خان کی قبر بھی اسی مسجد میں موجود ہے۔

یونیورسٹی اردو اکیڈمی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر راحت ابرار نے نمائندہ ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران بتایا کہ تاج محل کی خطاطی کے لیے شاہ جہاں نے ایران سے ایک خطاط کو بلوایا اس کا نام یاقوت رقہ تھا۔ پوری کیلیگرافی انہیں کے ذریعے کی گئی تھی۔ اتفاق سے انہوں نے ہی دہلی کی جامع مسجد کے پاس واقع اکبری مسجد کی بھی خطاطی کی تھی۔

اے ایم یو کی تاریخی جامع مسجد

سنہ 1857میں جسے غدر کا سانحہ بھی کہتے ہیں اس وقت سارے علماء جب وہاں موجود تھے، انگریزوں نے اس تاریخی مسجد کو شہید کردیا۔ اس مسجد کے ملبے کا علم سر سید احمد خاں کو تھا کیوں کہ بانی موصوف وہیں کے رہنے والے تھے، اس پر جو قرآن پاک کی آیت کندہ تھی وہ سورۃ الفجر کی آیات تھیں۔ سرسید کو جب پتہ چلا کہ اسے فروخت کیا جا رہا ہے تو اس وقت انہوں نے 102 روپے میں اسے خرید لیا اور یہ عزم کیا کہ جب وہ کیمپس میں مسجد کی تعمیر کرائیں گے تو اس کے صدر دروازے پر اسی کندہ شدہ آیات الہیہ کو وہاں آویزاں کریں گے۔ اور بعد میں ایسا ہی ہوا۔

یونیورسٹی کے شعبہ دینیات کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر ریحان اختر نے بتایا اس مسجد کی اہمیت اس لیے زیادہ بڑھ جاتی ہے کیوں کہ اس کیمپس میں مختلف مکتبہ فکر کے لوگ رہتے ہیں۔ خواہ ان کا تعلق شیعہ مکتبہ فکر سے ہو یا سنی مکتبہ فکر سے۔ اس تاریخی مسجد میں مل کر نماز ادا کرتے ہیں، لیکن یہاں جماعتیں الگ الگ ہوتی ہیں۔ اگر کسی مسجد کو اتحاد و وحدت کی زندہ و جاوید علامت قرار دیا جاسکتا ہے تو وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی یہی تاریخی مسجد ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.