علی گڑھ: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے سنٹر آف ایڈوانسڈ اسٹڈی، شعبہ تاریخ کی چیئر پرسن پروفیسر گلفشاں خان نے استنبول کی بین الاقوامی کانفرنس میں بابری (مغل) سلطنت: نئے مآخذ، نئے نقطہائے نظر' موضوع پر منعقدہ تین روزہ چوتھے بین الاقوامی سلیمانیہ سمپوزیم میں اپنا تحقیقی مقالہ بعنوان "پادشاه نامہ: مغل شہنشاہ شاہجہاں اور ممتاز محل" پیش کیا۔ AMU Historian Present Paper In Istanbul
اپنے مقالے میں پروفیسر گلفشاں نے شاہ جہاں اور اس کی اہلیہ ارجمند بانو بیگم، ملکہ متناز محل کی خانگی زندگی پر روشنی ڈالی اور کہا "شاہ جہاں نے اپنے والد کے برعکس کوئی خود نوشت سوانح عمری (Autobiography) نہیں لکھی۔ تاہم نثر اور نظم میں لکھی گئی ان کے دور حکومت کی سرکاری تاریخ مغل خاندان کے پیچیدہ خاندانی تعلقات کا خاکہ پیش کرتی ہے"۔
انہوں نے ملکہ ممتاز محل کی وفات پر درباری شاعر بیبدال خان (Bebadal Khan) کے تحریر کردہ مشہور مرثیہ کے بارے میں گفتگو کی جو مشہور مقبرے کی تعمیر پر بھی اثر انداز ہوا۔ پروفیسر گلفشاں نے کہا "اس میں لکھا گیا کہ جب ممتاز محل اس دنیا سے رخصت ہوئیں تو حوروں نے ان کے لیے جنت کے درواز کے کھول دیئے اور فرشتوں نے کہا : ممتاز محل کا ٹھکانہ جنت ہے"۔ انھوں نے برٹش لائبریری، لندن اور فائن آرٹس میوزیم، ہارورڈ کی نادر پینٹنگس کو پروجیکٹر کے ذریعے دکھایا۔
مغلیہ دور میں عثمانی حکمرانوں کے ساتھ ہندوستان کے ثقافتی تعلقات کے بارے میں بات کر تے ہوئے، پروفیسر گلفشاں خان نے بتایا کہ کم از کم تین رسمی سفارتی وفود (38-1637، 1650، اور 1653) استنبول سے مغل دربار آگرہ اور بعد میں دہلی وارد ہوۓ۔ انھوں نے کہا "لیکن یہ ثقافتی تباد لے خاص طور پر کابل اور قندھار (جدید دور کے افغانستان) پر کنٹرول حاصل کرنے اور ازبکستان میں اپنے وسطی ایشیائی وطن پر دعووں کو مضبوط کرنے کے مغلوں کے سامراجی ایجنڈے پر مرکوز تھے"۔
یہ بھی پڑھیں:Student Forbidden to Wear Hijab اسکول میں حجاب پہننے سے منع کرنے پر طلبہ کا احتجاج
پروفیسر گلفشاں خان نے مغل سلطنت اور دیگر سلطنتوں جیسے ایران کے صفوی، وسطی ایشیا کے چنگیز خانات اور ایشیائی کوچک کے عثمانیوں کی کثیر جہتی تاریخ پر مزید تحقیق پر زور دیا۔ انھوں نے کہا ’’ایک مربوط بامعنی تاریخی بیانیہ تحریر کیا جا سکتا ہے جو اس خیال کو پیش کرے کہ تاریخ کے دھارے کو سمجھا جا سکتا ہے اور اس کی تشریح کی جاسکتی ہے"۔
پروفیسر گلفشاں خان نے بتایا کہ سمپوزیم کے مختلف سیشن میں جنوبی ایشیا، یورپ، شمالی امریکہ اور ترکی کے اسکالروں نے مغلوں پر 30 سے زائد مقالے پیش کئے۔ مغل بادشاہ اکبر اور شہزادہ داراشکوہ کے دور میں سنسکرت متون کے فارسی ترجمہ پرمبنی تحقیقی مقالے بھی کانفرنس میں پیش کئے گئے۔ AMU Historian Present Paper In Istanbul