علیگڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کوآرڈینیشن کمیٹی کے بانی رکن محمد عامر منٹوئی نے بتایا کہ 'شہریت ترمیمی قانون کے خلاف اے ایم یو میں احتجاج کے دوران 15 دسمبر 2019 کی شب پیش آئے واقعے میں زخمی طلبہ کو دیے جانے والا معاوضہ (شدید زخمی کو پچیس اور زخمی کو دس ہزار روپئے) ریاست اتر پردیش کے قانون کے مطابق نہیں ملا ہے۔
تقریبا دو برس قبل شہری ترمیمی قانون کے خلاف ملک بھر میں احتجاجی مظاہرہ کئے گئے۔ تعلیمی ادارہ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بھی طلبہ وطالبات نے بڑی تعداد میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کیا۔ جس کے دوران دو برس قبل 15 دسمبر 2019 کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پولیس اور طلبہ کے درمیان پیش آئے واقعے جس میں اطلاع کے مطابق تقریبا پچاس سے زیادہ طلبہ زخمی ہوئے جس میں کچھ طلبہ شدید زخمی بھی ہوئے تھے۔
گزشتہ 15 دسمبر 2019 کی شب میں اے ایم یو انتظامیہ کی اجازت کے بعد ہی پولیس باب سید سے کیمپس میں داخل ہوئی۔ یونیورسٹی کی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ تھا جب پولیس اور طلبہ کے درمیان اتنے بڑے پیمانے پر تشدد ہوا جس میں کچھ طلبہ شدید زخمی بھی ہوئے۔
زخمی طلبہ کے نام اور معاوضے کی رقم۔
- محمد طارق ولد عشرت علی عمر 26 سال کو 25 ہزار روپے
- ناصر چمن ولد محمد چمن عمر 20 سال کو 25 ہزار روپے
- تبریز خان ولد محمد حکیم عمر19 سال کو 10 ہزار روپے
- تعظیم خان ولد شمیم خان عمر 20 سال کو 10 ہزار روپے
- انصاری ایاض احمد ولد احمد رضا عمر 24 سال کو 10 ہزار روپے
- ندیم عالم ولد نسیم عالم عمر 21 سال کو 10 ہزار روپیہ
اے ایم یو کوآرڈینیشن کمیٹی کے بانی رکن محمد عامر منٹوئی نے بتایا '15 دسمبر 2019 کی شب میں پیش آئے واقعے میں جس میں طلبہ زخمی ہوئے تھے اس کے بعد الہ آباد ہائی کورٹ نے ایم ایچ آر سی کی ٹیم کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی تحقیقات کے لیے بھیجا جس کے بعد ایم ایچ آر سی کی رپورٹ کے بعد ہائی کورٹ کو ایک آرڈر پاس کیا فروری 2021 میں جس میں کچھ حدایات دی تھی جس میں سے ایک حدایت یہ تھی کہ زخمی طلبہ کو معاوضہ دیا جائے۔'
عامر منٹوئی نے بتایا 'کورٹ نے معاوضہ کی بات اس لیے کہی تھی کیونکہ کورٹ نے پولیس کے رویے کو ایکشن کو غیر ضروری اور ضرورت کے حساب سے زیادہ بتایا تھا۔ مارچ کے ماہ میں ہی اس کا فیصلہ ہونا تھا لیکن کورونا وبا اور لاک ڈاؤن کے سبب تاریخ نہیں مل پا رہی تھی آخر کار تقریبا دو سال بعد اس سے متعلق فیصلہ آ گیا ہے جس میں زخمی اور شدید زخمی طلبہ کو معاوضہ دینے کی بات کہی ہے۔'
یہ بھی پڑھیں: اے ایم یو بی ای کے طلباء کا احتجاج
انتظامیہ کی جانب سے جاری خط کے میں ایک بات کہی گئی ہے کہ طلبہ معاوضہ کے حق دار نہیں ہے جبکہ کورٹ نے یہ فیصلہ سنایا ہے کہ طلبہ کو معاوضہ دیا جائے تو یہاں پر سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انتظامیہ کورٹ سے زیادہ بڑا ہے؟ اور دوسری بات جو معاوضے کی رقم طے کی گئی ہے وہ مطمئن بخش نہیں ہے۔'
عامر منٹوئی نے کہا 'ریاست اترپردیش کے قانون کے مطابق حادثے میں مستقل معذوری کی رقم دو لاکھ روپیہ ہیں جبکہ یہ لوگ محض 25 ہزار روپے دے رہے ہیں۔ جبکہ طارق اور ناصر کے ہاتھوں کی انگلیاں حادثوں میں چلی گئی جو میرے خیال سے مستقل معذوری ہے۔ زخمی طلبہ کو دی جانے والی رقم قانون کے مطابق مطمئن بخش نہیں ہیں۔'