عوام کو خطاب کرتے ہوئے 'آیئن بچاؤ آندولن' کے سربراہ عمیق جامعی نے کہا کہ' 19 دسمبر کو لکھنؤ میں ہوئے احتجاج کے بعد پولیس نے بڑی تعداد میں گھروں میں گھس کر، راتوں میں گھروں کے اندر کود کر نوجوانوں کو پکڑ کر جیل میں بند کر دیا تھا۔'
انہوں نے کہا کہ 'اتنا ہونے کے باوجود لکھنؤ کے معتبر لوگوں نے اس کے خلاف ایک آواز بھی نہیں اٹھائی کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ حکومت اور ضلع انتظامیہ ان سے ناراض ہوجائے اور تمام سہولت ان سے واپس لے لی جائے۔'
عمیق جامعی نے کہا کہ 'اب وقت آگیا ہے کہ ہم سیکولر جماعتوں کے رہنماؤں سے کھلے طور پر بات چیت کریں کہ وہ سی اے اے اور این آر سی کے خلاف ہمارے ساتھ ہیں یا نہیں۔ اگر ہمارے بات سے اتفاق رائے رکھتے ہیں تو بتایں، ورنہ سارے تعلقات ختم کریں۔'
انہوں نے کہا کہ 'میں سماج کے ان نام نہاد لوگوں سے مخاطب ہوں، جو مسلم سماج کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں۔ ہماری ماں بہنیں گھنٹہ گھر میں کئی دنوں سے احتجاج پر بیٹھی ہیں لیکن اب ان کی ہمت نہیں ہوتی کہ وہاں جائیں اور نظریں ملا کر ان خواتین سے بات کر سکیں۔'
آیئن بچاؤ آندولن کے سربراہ عمیق جامعی نے کہا کہ 'اس قانون کے خلاف عوام کی آواز کو خاموش کرانے کے لئے ڈی ایم، ایس پی نے سبھی اضلاع میں علماء کو ڈرایا دھمکایا، یہاں تک کہ مدارس کے کاغذات دیکھنے کو مانگا گیا۔'
انہوں نے ذمہ داری لیتے ہوئے کہا کہ 'آپ سبھی کو حکومت کا ڈر و خوف اپنے ذہن سے نکال دینا چاہیے ورنہ ہماری نسلیں پوچھیں گی کہ جب ہم پر ظلم زیادتیاں کے پہاڑ توڑے جارہے تھے، اس وقت آپ کہاں تھے؟'
عمیق جامعی نے کہا کہ 'مودی حکومت بات چیت کے ذریعے ہمارے تحریک کو کو ختم کرنا چاہتی ہے لیکن ہم اعلان کرتے ہیں کہ حکومت سے کوئی بات چیت اس وقت تک نہیں ہوگی، جب تک کہ اس قانون کو واپس نہیں کر لیا جاتا۔'
کمیٹی ممبران پر عمیق جامعی نے شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ 'کھلے آسمان کے نیچے ہماری ماں، بہن اور چھوٹی بچیاں دھرنے پر بیٹھی ہیں لیکن آج اس اسٹیج پر کوئی خواتین موجود نہیں ہے۔'
انہوں نے مزید کہا کہ 'ہمیں چاہیے کہ اس تحریک کو خواتین کے ہاتھوں پر چلنے دیں ورنہ یہ تحریک ختم ہو جائے گی۔'